آزاد کشمیر،منزل کہاں راستہ کہاں

آزاد کشمیر کے یوم تاسیس پر خصوصی مضمون

24اکتوبر 1947ءکو سردار محمدابراہیم خان کی صدارت میں تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ کے طور پر آزاد جموں و کشمیر حکومت کا قیام باقاعدہ طور پر عمل میں لایا گیا۔ نئی حکومت کے قیام کا اعلان 27اکتوبر1947ءکو پاکستان ٹائمز لاہور میں شائع ہوا۔ جس کا متن حسب ذیل ہے۔

”ہنگامی حکومت کو عوام نے کچھ ہفتہ قبل ناقابل برداشت ڈوگرہ مظالم کے خاتمہ اور عوام کے آزادانہ اقتدار کے حصول کیلئے بنایا تھا اب ریاست کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا ہے اور بقیہ حصہ ڈوگرہ مظالم کے تسلط سے آزاد کرانے کی امید کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی اور صدر دفاتر کو پلندری منتقل کرکے مسٹر ابراہیم بیرسٹر حکومت کا عارضی صدر مقرر کیا گیا ہے۔ نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو متحدہ آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جاسکے۔ آزادی کی یہ تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا ہے، 1919ء سے جاری ہے۔ اس تحریک میں جموں و کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیل کاٹی اور جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔بہرحال عوام کی متفقہ آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی متعدد فوج ہار گئی ہے۔ حکمران اپنے وزیراعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلاہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھا گ نکلے گا۔ عارضی حکومت جو ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔ اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اسمبلی اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ ہمسایہ مملکت ہائے پاکستان اور ہندوستان کیلئے بہترین جذبات دوستی اور خیرسگالی رکھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ہر دو مملکتیں کشمیری عوام کو فطری آرزو سے آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گے۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سا لمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے طے کیا جائے گا۔ غیر ملکی مبصرین ومشاہدین کو دعوت دی جائے گی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے ہے یہ مسئلہ بخیر و خوبی طے ہوگیا“۔

آزادکشمیر حکومت کی پہلی کابینہ میں صدر سردار محمد ابراہیم خان، نائب صد کرنل سید احمد علی شاہ اور وزا چوہدری محمد عبداللہ خان ، خواجہ غلام دین وانی ، سید نذیر حسین شاہ اور خواجہ ثناءاللہ شمیم شامل تھے۔ سردار محمدابراہیم خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کی مہاراجہ کی فوج میں شامل مسلمان فوجیوں نے ریاست کی تمام فوجی چھاﺅنیوں میں بیک وقت بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا لیکن باغ میں ہونے والی مقامی بغاوت سے ڈوگرہ حکمران چوکنے ہو گئے اور تمام مسلمان فوجیوں سے اسلحہ لے لیا گیا۔اس کی تصدیق گلگت بلتستان کے فاتح کرنل مرزا حسن خان کی کتابوں سے بھی ہوتا ہے۔24اکتوبر کو ہی آزاد فوج نے قبائلی مجاہدین کی مدد سے مظفرآباد شہر پر قبضہ کرلیا۔30اکتوبر کو مجاہدین نے بارہ مولہ پر قبضہ کرلیا اور 27اکتوبر کو سرینگر سے تین میل دور شالہ ٹینگ پہنچ گئے صرف ایک ہفتہ کی یلغار نے ڈوگرہ آرمی کو مفلوج کردیا اور اس کے چیف آف سٹاف برگیڈئیر راجندرسنگھ میدان میں کام آگئے۔یاد رہے کہ اس وقت بھارت نے کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش نہیں کیا تھا بھارتی حکومت کے دعویٰ کے مطابق جب ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26اکتوبر1947ءکو بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیئے (حالانکہ26اکتوبر1947ءکو مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر اور جموں کے درمیان سفر کررہے تھے اور دستخط کرانے والے وی پی مینن (سیکرٹری امور داخلہ حکومت بھارت) دہلی میں موجود تھے بھارت کے ساتھ الحاق کی یہ جعلی دستاویز 27 اکتوبر1947ءکو بنائی گئی جبکہ اس سے قبل ہی صبح چھ بجے بھارتی فوج کی ایک بٹالین 850 نفری سرینگر کے ائیرپورٹ پر اتر گئی تھی۔

27اکتوبر1947ءکو آزاد افواج اور ان کے اتحادی قبائلی مجاہدین سرینگر شہر کی چونگی (شالہ ٹینگ) سے فرار ہو کر اپنے آبائی شہر جموں پہنچ چکا تھا۔ جبکہ ریاست جموں و کشمیر کا بیشتر علاقہ (جس میں وادی کشمیر کا نصف علاقہ شامل تھا) حکومت آزادکشمیر کے عملی کنٹرول میں آچکا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مغربی علاقے (پونچھ) میں اگست1947ءمیں کشمیری عوام نے مسلم کانفرنس کے پروگرام اور تحریک کے مطابق ڈوگرہ شاہی سے بغاوت کی تھی اور22 اکتوبر1947ءکو قبائلی مجاہد مظفرآباد شہر میں داخل ہوچکے تھے۔ اکتوبر‘ نومبر دسمبر1947ءمیں آزاد اور قبائلی مجاہدین اور ڈوگرہ آرمی اور بھارتی افواج کے درمیان منادر سے زوجیلا (کرگل) تک جنگ جاری تھی تو بھارتی حکومت نے گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی متنازعہ جموں و کشمیر میں باہر کی تمام فوجیں اور رضاکاروں کو بیک وقت نکال کر جموں و کشمیر کے عوام کی رائے سے الحاق کا معاملہ طے کرنے کی پیش کش مسترد کرکے یہ تنازعہ دسمبر ۷۴۹۱ءکے آخری روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچایا۔ سلامتی کونسل نے دونوںطرف کا موقف سن کر اپریل 1948ءمیں اس سلسلہ میں اپنی پہلی قرارداد منظور کی جس میں طے پایا کہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں جنگ بند کرکے یہاں استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں حریف ملکوں بھارت اور پاکستان نے سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ قبول کیا اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس واضح اور واشگاف فیصلے کے سلسلہ میں درجنوں قراردادیں پاس کیں۔ تاہم آج تک ریاست کے بیشتر علاقے پر قابض بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان پر عمل نہ ہوا اور کشمیری عوام اپنے حق خوداختیاری سے آج تک محروم ہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے پچھلے63 سال سے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد مسلسل اور مختلف جمہوری طریقوں سے جاری رکھی ہے اوربھارت کشمیریوں کی ہر پر امن آواز کو اپنی ریاستی طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے ۔

24اکتوبر1947ءکو کشمیری عوام نے ڈوگرہ شاہی کے خلاف بغاوت کرکے اپنی جو عوامی حکومت قائم کی تھی وہ آج بھی مظفرآباد میں قائم ہے۔ ساڑھے تیرہ ہزار کلومیٹر (تقریبا5 ہزار مربع میل) رقبے اور35لاکھ آبادی کے علاقے کی حکومت میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین ہیں۔ یہاں عوام کے ووٹوں سے قائم ایک قانون ساز اسمبلی ،آزاد جموں و کشمیر کونسل اور ایک منتخب حکومت ہے۔لیکن اب عملی طور پر آزاد کشمیر کی حکومت اور آزاد خطہ تحریکی امور سے لاتعلق ہو کر مقامی سطح کے امور کے حوالے سے مفاداتی سیاست میں محدود ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومتیں گلگت بلتستان کے انتظام کے بعد مسئلہ کشمیر کو بھی وزارت خارجہ کے سپرد کر کے، خود کواس بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ کرتے ہوئے قبیلے اور علاقے کے نام پر مفاداتی سیاست میں مشغول ہو گئی ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں، حکومتوں نے کشمیر کاز کی وجہ سے آزاد کشمیر کو حاصل ایک ریاست کی طرح کے ” سیٹ اپ“ کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قبیلے اور علاقے کی مفاداتی سیاست کو فروغ دیا،قبیلے اور علاقے کے نام پر مفادات کی دوڑ تیز ہو گئی جس سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں شخصی گروپوں میں ڈھل چکی ہیں۔ گروپوں کی مفاداتی سیاست نے آزاد کشمیر کے چند لاکھ عوام کو درجنوں گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے اور آزاد کشمیر ریاستی تشخص پر مبنی تحریکی نمائندہ حکومت کے بجائے میونسپل کمیٹی کے ادنی درجے پر محسوس ہوتی ہے۔اختیارات کے لئے کردارکا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔یہ صورتحال نمایا ں ہے کہ آزاد کشمیر اپنے روائیتی کردار اور وقار سے بتدریج محروم ہوتا چلا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے پہلے نگران اعلٰی چودھری غلام عباس(مرحوم) آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست کے سخت مخا لف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابی سیاست سے آزاد کشمیر اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائے گا۔

یہ امر واضح ر ہے کہ حکومت آزاد جموں و کشمیر صرف آزاد علاقے کی ہی نمائندہ اور ترجمان نہیں ہے۔ نظریاتی‘ فکری اور سیاسی طور پر یہ حکومت تمام ریاست جموں و کشمیر84 ہزار مربع میل اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کی نمائندہ او رترجمان ہے۔ اس حوالے سے حکومت آزادکشمیر چند ہزار مربع میل اور چند لاکھ لوگوں کے مسائل اور معاملات کو حل کرنے کیلئے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل اور بنیادی کام ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقے کو بھارتی فوجی تسلط سے آزاد کرانا اور جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا تسلیم شدہ حق خودارادیت دلانا ہے۔لیکن اگر ان بنیادی امور کو پس پشت ڈال دیا جائے تو آزاد کشمیر میں ریاستی حکو مت کے ”سیٹ اپ“ کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور اس صورت آزاد کشمیر کو آبادی اور رقبے کے مطابق ہی حیثیت مل سکتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد نے بھارت کو پریشان کرتے ہوئے اقوام عالم کی توجہ بھی حاصل کی ہے جبکہ دوسری طرف آزاد کشمیر بتدریج اپنے اختیارات سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے او ر سیاسی و اخلاقی گراوٹ سے آزاد کشمیر کے قدرتی آفات اور بدترین کرپشن سے مصیبت زدہ عوام کی مشکلات اور مصائب بڑہتے جا رہے ہیں اور بدنامیاں اس خطے سے منسوب ہو چلی ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699686 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More