وہ اندھیر کہ جس کے حال کا کوئی پُرساں نہیں ہے

کیا زمانہ تھا 1970ء کی دہائی تھی غربت ہوتی تھی تنگدستی ہوتی تھی جو جتنا مفلوک الحال ہوتا تھا اتنا ہی کثیر العیال ہوتا تھا ۔ آٹھ آٹھ اور کہیں تو درجن کے قریب بچے ۔ بطرز آپا فلاں اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا ۔ چلو کوئی بات نہیں پیدا کیے ہیں تو اب ذمہ داری بھی پوری کرو مگر ہوتا کیا تھا کہ سب سے بڑے بیٹے کو اُن کا باپ بنا دیا جاتا تھا ایسا ہی دور تھا وہ ۔ پھر ولی عہد کی کمبختی وہاں سے شروع ہوتی تھی جب سب کے بخت سنوارنے کے لئے وہ پردیس کو سدھارتا تھا ۔ اور سعودیہ و امارات کے ریگزاروں میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہوئے اس کی عقل خبط ہو جاتی تھی ۔

سو فیصد پردیسی سوائے اپنے بنیادی اخراجات کے اپنے پاس کچھ بھی رکھے بغیر اپنی کل کمائی اپنے والدین کے ہاتھ میں دیتے تھے جو کہ مشترکہ گھرانے پر خرچ ہوتی تھی ۔ کوئی پلاٹ دکان یا نیا مکان ابا یا چھوٹے بھائی کے نام سے خریدا جاتا تھا جس پر آخرش وہی اکیلا قابض ہو جاتا تھا ۔ اور جو جائیداد ابا کے نام پر ہوتی تھی اس میں سب برابر کے حصے دار ۔ بینک کے لون کی ادائیگی میں کوئی حصے دار نہیں وہ صرف باہر والے بکرے کی ذمہ داری ۔ اور عام طور پر والدین بھی اُسی کی بیوی کی ذمہ داری ، کیونکہ شوہر بارلے ملک ہونے کی وجہ سے وہ اُس کی بجائے اُس کے ماں باپ کے ساتھ رہنے پر مجبور ۔ ٹہل سیوا کے لئے ماں پوری کی پوری صرف اُسی کی مگر اُس کے مرنے کے بعد اُس کے زیور کپڑوں اور قیمتی اشیاء میں سب بیٹیوں اور اور باقی بہوؤں کا برابر کا حصہ ۔

پھر 90ء کی دہائی میں اسی طبقے کے نیم خواندہ اکثر ہی غیر ہنرمند مگر بہتر روزگار کے متلاشی اور اپنے اہلخانہ کی خوشحالی و مالی آسودگی کے خواہشمند نوجوانوں میں غیر قانونی طریقوں سے یورپی ممالک تک رسائی کے جنون کا آغاز ہوا ۔ اور اس کے لئے بھی زر کثیر درکار ہوتا تھا جو کہ قرض لے کر یا پھر اپنی کوئی اراضی وغیرہ فروخت کر کے ایجنٹوں کو ادا کیا جاتا تھا ۔ مطلوبہ دستاویزات کے بغیر چوری چھپے مختلف ممالک کے بارڈر پار کرنے کی کوششیں ایک یقینی موت کا سفر ہوتی ہیں کشتیوں کی غرقابی ایک معمول کی بات ہو کے رہ گئی ہے مگر ڈنکی لگانے کے شوق یا جنون میں کوئی افاقہ نظر نہیں آتا ۔ بنیادی وجوہات میں پیشہ ورانہ تعلیم کی کمی، روزگار کی عدم دستیابی، معاشی بحران، عدل و مساوات کا فقدان، سیاسی عدم استحکام، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سماجی نا ہمواری، طبقاتی تفریق کے باعث جنم لینے والا احساس محرومی اور مالی آسودگی کے حصول کے جذبے کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی محرکات شامل ہیں مثلاً دکھاوے اور مسابقت کی دوڑ ۔ پھر کسی ایک سادہ لوح کی قربانیوں سے باقی سب اپنوں کے دن پھر جاتے ہیں ۔ مگر خود اس کی اپنی فیملی کی زندگیوں میں جو ایک کمی رہ جاتی ہے ایک خلا جس کے نتیجے میں انہیں جو جذباتی اخلاقی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بہت بھاری خسارہ ہوتا ہے جس کا خمیازہ تقریباً ہر پردیسی کو اپنے بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے ۔

 

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 245 Articles with 1957626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.