آپ ان کے بارے میں کوئی بھی رائے
قائم کریں جو آپ کا حق ہے لیکن یہ بات ثابت ہوتی رہی ہے کہ زرداری صاحب اس
ملک کے کرپٹ سیاسی دنگل میں جمہوریت کا چیمپئین قرار دئے جا سکتے ہیں ۔
کوئی بھی کڑا موقع درپیش ہو ان کی شٹل ڈپلومیسی سے تمام معملات اپنے کنٹرول
میں کرنے کا خاصہ ان کی سیاسی پختگی کا آئینہ دار ہے اور اس بات کا ثبوت
بھی ہے کہ اس ملک میں حالات کی مناسبت سے کوئی لیڈر شپ ہے تو اسے آصف علی
زرداری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے کراچی کے ایک سینما گھر سے صدارت تک
کا سفر ہی کا تجزیہ کر لیں تو ان کی صلاحیتوں کے مخفی رموز و اثرار حیرت
انگیز قرار دئے جا سکتے ہیں ۔ یہ وہ شخص ہے جو اگر ٹارگیٹ کا تعین کر لے
توجس خوبصورتی سے سرانجام دینے کی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ تمام رستے کی
تمام مذاہمتیں دم توڑ دیتی ہیں اور وہ کامیابی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کر
لیتا ہے ۔ ایک خاص بات اور اس شخص سے منصوب ہے کہ وہ شخص یاروں کا یار ہے
اور کسی کو بے یار و مدد گار چھوڑنا اس کی فطرت میں شامل نہیں ۔ اس لئے ان
کے قریبی ساتھی اور دوست اس دوستی پر فخر کرتے ہیں ، اور اچھے برے وقت میں
ساتھ نبھاتے ہیں لیکن یہ بات ان کی صدارت کی کرسی وابسطہ نہیں ہے بلکہ ان
کی فطرت کا حصہ ہے۔
ان کی سیاسی بصیرت اور حالات سے آگہی کے باعث پاکستان کے سیاسی پنڈتوں کو
اپنے قول و فعل کی بھیانک تصویر دکھائی دیتی ہے جس سے خوفزدہ ہو کر وہ آئیں
بائیں اور شائیں کر کے اپنا منہہ نوچنے اور سر پیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں
۔ اور وہ جو اقتدار کی خواہش میں عسکری اداروں کوسیاسی میدان میں لانے کے
لئے رات کی تاریکیوں میں ملتے ہیں اب تو ان کی اس کاروائیوں کو غیر موثر
کرنے میں زرداری کی کوشش کامیاب ہے ۔ سیاسی جغادری ان کو تنہا کرنے کا خواب
دیکھنا اور انکے خلاف کسی بھی منصوبہ بندی کی کوششیں کرنا چھوڑ دیں کیونکہ
وہ اب تک مستقل ناکامی سے دوچار رہے ہیں ۔ انہیں آئندہ الیکشن میں اپنی بقا
کے اقدامات کرنے پر توجہ دینی چاہئے لگتا ہے کہ وہ کہیں اس سے ہی محروم نہ
کر دئے جائیں ۔ صدر زدراری کا یہ بیان کہ اب وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ
سیاست کسے کہتے ہیں یہ ایک عزم ہے جسکے تناطر میں یوں لگتا ہے کہ اس بار
پریشر کی سیاست کا خاتمہ قریب ہے جس سے پورا ملک متاثر ہوتا رہا ہے۔
کرپشن اور لوٹ مار میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں ہے اس حمام میں سارے بری طرح
لتھڑے ہوئے ہیں ۔ بڑے بڑے پردہ نشین اس میں بری طرح آلودہ ہیں کیا انتظامیہ
کیا بیوروکریسی کیا ایجنسیاں اور فوجی اسسٹیبلشمنٹ، اسی لئے کوئی کاروائی
اس ملک میں نہیں ہونے دیتے یہ ایک المیہ ہے ۔
ا س سیاسی جوہڑ میں ایک شخص جو کامیابی کے جھنڈے لگاتا چلا آ رہا ہے وہ ہے
آصف علی زرداری ۔ جو ہر پارٹی ہر طبقہ کا انداز سیاست سبجھتے ہوئے اسے اس
کی جگہ کا تعین کرنے کی صلاحئیت کے حامل ہیں چاہے وہ ایجنسیاں ہوں یا ان کے
پالتو لوگ ہوں ،وہ فاشسٹ گروپ ہوں، وہ لسانی یا مذہبی گروپ ہوں ، چونکہ اس
ملک سے ہر فلیور کی وہ پہچان رکھتے ہیں اور انکو ہر میدان میں اب تک شکست
سے دوچار کر کی خود پر پر آئی مشکلات سے عہدہ براء ہونے کی مکمل صلاحتیت ہی
نہیں بلکہ انہیں پسپائی پر مجبور کرتے رہے ہیں ۔ اسی باعث انہیں جمہوریت کا
ایک کامیاب استاد قرار دیا جا سکتا ہے ۔ لوگ ان کے طرز سیاست سے سبق حاصل
کریں انہیں اقتدار سے باہر کرنے کے لئے صرف ایک رستہ ہی باقی رہا ہے جسے
سرخ انقلاب کہا جاتا ہے جسے اٹھانا موجودہ رائیج نظام کے بس کی بات نہیں ہے
بلکہ اس ملک کے کرپٹ سیاست دان خود مل کر غیر موثر کرنے کی جدوجہد نیں
مصروف ہیں اسلئے کیا جا سکتا ہے کہ زرداری صاحب کے اقتدارکو کسی قسم کا
کوئی خطرہ نہیں ہے - |