جنگ یا امن ۔ کنجی پاکستان میں

آج کی دنیا میں جس کے ہاتھ ٹیکنالوجی ہے، اسی کے پاس طاقت ہے—اور اس طاقت کی بنیاد ایک خاموش سی معدنیاتی دولت پر ہے جسے نایاب ارضی عناصر
(Rare Earth Elements)
کہا جاتا ہے۔ یہ 17 عناصر نایاب نہیں بلکہ منتشر ہیں، لیکن ان کے قابلِ عمل ذخائر بہت کم اور صرف چند ممالک میں ہیں جو انہیں نکال کر قابلِ استعمال بنا سکتے ہیں۔
ان عناصر کی اہمیت موبائل فونز، برقی گاڑیوں، سیٹلائٹس، اور دفاعی نظاموں میں اتنی ہے کہ اب یہ عالمی سیاست اور طاقت کے نئے کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور اسی خاموش دوڑ میں ایک نیا مرکز بن کر ابھرا ہے: بلتستان۔

نایاب ارضی عناصر کیا ہیں؟
نایاب ارضی عناصر میں 15 "لانتھینائیڈز" کے ساتھ اسکینڈیم اور ییٹریئم شامل ہوتے ہیں۔ یہ عناصر مخصوص مقناطیسی، روشنی جذب کرنے والے، اور کیمیائی خصوصیات رکھتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
اگرچہ یہ زمین کی سطح پر کئی جگہ پائے جاتے ہیں، مگر ان کا نکالنا مہنگا، پیچیدہ، اور ماحولیاتی طور پر خطرناک ہوتا ہے۔ ان عناصر کی اصل اہمیت صرف دریافت میں نہیں، بلکہ پروسسنگ اور کنٹرول میں ہے۔

بلتستان: خاموش خزانہ
پاکستان کے شمال میں واقع بلتستان، جو گلگت بلتستان کا حصہ ہے، قدرتی معدنیات سے بھرپور علاقہ ہے۔ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان واقع یہ خطہ نایاب ارضی عناصر کے ممکنہ ذخائر رکھتا ہے، جو ابھی مکمل طور پر دریافت نہیں ہوئے۔

چین کے تعاون سے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت یہاں سڑکیں، بنیادی ڈھانچہ، اور ممکنہ کان کنی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ترقی کا موقع ہو سکتا ہے، مگر بھارت اور امریکہ کی طرف سے شدید تشویش کا باعث بھی ہے۔

امریکہ کی خواہشات
ماضی میں امریکہ نایاب ارضی عناصر میں خود کفیل تھا، لیکن وقت کے ساتھ زیادہ تر پروسیسنگ اور پیداوار چین کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب امریکہ اپنی تکنالوجی اور دفاعی ضروریات کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے، جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
اسی لیے امریکہ اب نئے وسائل کی تلاش، ری سائیکلنگ، اور اتحادی ممالک سے معاہدوں پر زور دے رہا ہے، لیکن میدان میں چین بہت آگے نکل چکا ہے۔

حکمتِ عملی کا بادشاہ
چین اس وقت دنیا کے 60 فیصد سے زائد نایاب ارضی عناصر کی پیداوار اور اس سے بھی زیادہ پروسیسنگ پر قابض ہے۔ اس کی حکمت عملی سادہ ہے:
وسائل پر قبضہ، مکمل سپلائی چین پر کنٹرول، اور عالمی سطح پر معاشی دباؤ کا استعمال۔

چین نے CPEC کے ذریعے نہ صرف پاکستان سے تعلق مضبوط کیا، بلکہ بلتستان جیسے معدنیاتی خزانے تک رسائی حاصل کر لی۔ یہ نہ صرف اقتصادی بلکہ علاقائی اسٹریٹیجک طاقت کا مظہر ہے۔

بھارت کا خوف
بھارت کے پاس بھی آندھرا پردیش اور اوڈیشہ جیسے علاقوں میں نایاب ارضی عناصر کے ذخائر موجود ہیں، اور وہ ان پر تحقیق اور پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے۔
مگر جب بات گلگت-بلتستان کی آتی ہے، بھارت اسے اپنے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے۔ چین کی وہاں موجودگی، خاص طور پر معدنیات نکالنے کے لیے، بھارت کو سیکیورٹی اور خودمختاری دونوں لحاظ سے خطرہ محسوس ہوتی ہے۔

پاکستان: موقع اور دباؤ کے درمیان
پاکستان کے لیے نایاب ارضی عناصر ایک معاشی موقع ہیں۔ قرضوں اور تجارتی خسارے سے پریشان پاکستان ان معدنیات کو اقتصادی ترقی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چین کے ساتھ اشتراک اس ترقی کی کنجی بن سکتا ہے۔

مگر ساتھ ہی، پاکستان کو ایک نرم مگر نازک توازن قائم رکھنا ہوگا۔ امریکہ کی تشویش، بھارت کی مخالفت، اور خطے کی حساسیت—یہ سب ایسے عوامل ہیں جو صرف معاشی فیصلے نہیں، بلکہ سفارتی مہارت بھی مانگتے ہیں۔

امن کی راہ یا جنگ کا میدان؟
نایاب ارضی عناصر صرف معدنیات نہیں، یہ طاقت، اختیار اور عالمی پالیسی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔
بلتستان اس دوڑ میں ایک نیا میدان بن چکا ہے، جو اگر عقلمندی سے سنبھالا جائے تو ترقی اور تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے، ورنہ یہ علاقہ مزید تنازعات، بے چینی، اور ممکنہ جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔


 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 137 Articles with 180069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.