غلامی ایک بھیانک خواب

دوست احباب ،پروفیشنلز کے ساتھ بیٹھک میں وطن وطنیت ،تاریخ وغیر پر بات ہوتی رہتی ہے ۔میں انھیں اکثر یہ کہتاہوں کہ یہ وطن پاکستان اللہ کا انعام ہے ۔اس کو لسانی تعصب اوردیگر گروہ بندی سے سے نکالو۔یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں آزادی کی عمارت میں شگاف ڈالتی چلی جاتی ہیں اور یوں وہ آزادی غلامی میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

قارئین:
آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر وہی جانتا ہے جس سے یہ چھین لی جائے۔ یہ صرف زمین کا ٹکڑا یا جھنڈے کی علامت نہیں، بلکہ ایک زندہ قوم کی پہچان، ایک شخص کی خودداری، اور ایک ملت کی اجتماعی روح ہوتی ہے۔ آزادی ہمیں سانس لینے کی وہ کھلی فضا دیتی ہے جس میں ہم اپنے خوابوں کی پرواز بھر سکتے ہیں، اپنی ثقافت، زبان، دین، اور اقدار کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

لیکن اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو غلام قوموں کی بے بسی چیخ چیخ کر ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ آزادی کی قدر نہ کرنے والی اقوام کو بربادی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکمرانی، فلسطین پر صیہونی ظلم، افریقہ میں کالوں کی غلامی — یہ سب مثالیں ہیں کہ جب ایک قوم کی آزادی چھن جائے تو اس کے جسم سے نہیں، اس کی روح سے زندگی چھین لی جاتی ہے۔ غلام قومیں اپنی تہذیب کھو بیٹھتی ہیں، ان کے سپنے مسل دیے جاتے ہیں، ان کے نوجوانوں کو دوسروں کی خدمت پر لگا دیا جاتا ہے، اور ان کی عورتوں اور بچوں کی عزت تک محفوظ نہیں رہتی۔

جب انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہو، تو نہ اس کے پاس اپنی زبان کو بچانے کی طاقت ہوتی ہے، نہ اپنی زمین کو، اور نہ اپنے دین و ایمان کو۔ وہ ہر دن ایک کرب میں جیتا ہے۔ لیکن جب کوئی قوم جاگتی ہے، جب کوئی شخص اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ "بس! اب مزید غلامی نہیں"، تب تاریخ کروٹ لیتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو انقلاب کی چنگاری بن کر پورے جہان کو روشن کر دیتا ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے ہمارے آبا و اجداد کو تحریک دی کہ وہ انگریزوں اور ہندو سامراج کے خلاف جدوجہد کریں اور پاکستان کی بنیاد رکھیں۔

آزادی کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ معاشی، فکری، اور روحانی آزادی کا بھی نام ہے۔ ہم اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکیں، اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں، اور اپنے وسائل پر خود مختار ہو سکیں — یہ سب اسی آزادی کی برکت ہے۔

یاد رکھو! اگر آج ہم اپنی آزادی کی قدر نہ کریں، اگر ہم آپس میں بٹے رہیں، کرپشن میں ڈوبے رہیں، اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑیں، توپهر کل ہماری نسلوں کو پھر غلامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرتیں، وہ دوسروں کے پنجوں میں جکڑ لی جاتی ہیں۔ فلسطین، کشمیر، برما — آج بھی یہ خطے ہمیں پکار پکار کر یاد دلاتے ہیں کہ آزادی کوئی تحفہ نہیں، یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس کی قیمت ہمیشہ چکانی پڑتی ہے۔

اے نوجوانو! اپنے اندر وہ آگ جگاؤ جو غلام قوموں کو آزاد کراتی ہے۔ خودداری، دیانت، علم اور اتحاد ہی وہ ہتھیار ہیں جو ایک زندہ قوم کے پاس ہوتے ہیں۔ اپنے ملک، اپنی سرزمین، اور اپنی اقدار کی حفاظت کرو، کیونکہ تم آج آزاد ہو — لیکن اگر تم سوئے رہے، تو کل یہ نعمت چھن سکتی ہے۔

آزادی ایک روشن صبح ہے، ایک کھلا آسمان ہے، ایک اپنی شناخت ہے۔ اس کی قدر کرو، اس کی حفاظت کرو، اور یاد رکھو:
"جو قومیں اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرتیں، تاریخ انہیں عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔"
کیا آپ چاہیں گے کہ اس مضمون کا ایک مختصر اقتباس یا نعرہ بھی تیار کیا جائے؟

قارئین:
جب ہم افریقہ کی تاریخ پڑھتے ہیں، تو آنکھوں کے سامنے وہ مناظر آجاتے ہیں جب کالے انسانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر غلام بنا کر یورپ اور امریکہ لے جایا جاتا تھا۔ ماؤں کی چیخیں، بچوں کی جدائی کی آہیں، اور جوانوں کی آنکھوں میں ٹوٹے ہوئے خواب — یہ سب اس دور کی خاموش گواہی ہیں۔ وہ مرد جو اپنے قبیلے کے ہیرو تھے، وہ عورتیں جو اپنے خاندان کی عزت تھیں، ایک دن نیلامی کی منڈیوں میں کھڑے ہوتے، اور ان کی قیمت طے کی جاتی جیسے وہ جانور ہوں۔

ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت نے بھی مقامی لوگوں کو غلامی کا کڑوا ذائقہ چکھایا۔ کسان اپنی ہی زمین پر محنت کرتے، مگر پیداوار انگریز لے جاتے۔ ہندوستانی سپاہی اپنی ہی زمین کے دشمنوں کی جنگ لڑنے پر مجبور کیے جاتے۔ دہلی کی گلیوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد ہزاروں بےگناہ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں اور چاندنی چوک کی سڑکوں پر لاشیں لٹکا دی گئیں۔ عورتیں بیوائیں بن گئیں، بچے یتیم ہو گئے، اور قوم کے دل میں غلامی کی زخم رسنے لگے۔

فلسطین کا ذکر کریں تو آج بھی دل کانپ اٹھتا ہے۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں، وہ پتھر اٹھائے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہیں۔ وہ بوڑھے جو سکون کی سانس لینا چاہتے ہیں، وہ خوف میں دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ فلسطینی ماؤں کی بے بسی اور ان کے جوان بیٹوں کی شہادت — یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ غلامی صرف جسم کی قید نہیں، بلکہ روح کی زخمی حالت ہے۔

کشمیر میں، ہزاروں لاشوں کے سائے تلے، آزادی کی تڑپ اب بھی زندہ ہے۔ نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب ہیں، لیکن ان خوابوں پر قابض کی بندوقوں کا پہرہ ہے۔ ہزاروں عورتیں وہ ہیں جنہیں ‘آدھی بیوائیں’ کہا جاتا ہے — جن کے شوہروں کا کچھ پتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہو چکے۔یہ تمام مناظر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ غلام قوم کی عزت، اس کا دین، اس کی زمین، اور اس کی نسلیں سب خطرے میں ہوتی ہیں۔ غلامی صرف بندوق کی نوک پر مسلط نہیں کی جاتی، یہ کبھی دلوں کو توڑ کر، کبھی زبانوں کو خاموش کر کے، اور کبھی وسائل کو لوٹ کر قائم رکھی جاتی ہے۔اس لیے، اے آزاد لوگو،
پیارے دوستوبھائیو!!!
اپنی آزادی کی قدر کرو! جو آج ہمارے پاس ہے، وہ ہزاروں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم نے اس کی حفاظت نہ کی، تو کل ہمارے بچوں کو انہی منڈیوں، انہی قیدخانوں، اور انہی عقوبت گاہوں کا سامنا ہوگا۔
اے نوجوان! تیرے ہاتھوں میں صرف موبائل نہیں، امت کا مستقبل ہے! کیا تُو چاہتا ہے کہ تیری انگلیاں کھیلوں اور فضولیات میں گھس کر امت کو مایوس کر دیں؟ اُٹھ، کچھ ایسا کر کہ تیری انگلیاں علم، ہنر اور خدمت میں چلیں!
یاد رکھ، وہ قومیں جو اپنی جوانی برباد کرتی ہیں، ان کا بڑھاپا غلامی میں گزرتا ہے!
اے غافل نوجوان! وقت تیرے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے، اگر اب بھی نہ سنبھلا تو کل تیرا کوئی نام لینے والا نہ ہوگا!
میدان عمل میں کود جا! تاریخ کبھی ان کو یاد نہیں رکھتی جو بس تماشائی بنے رہے، وہ صرف ان کا ذکر کرتی ہے جنہوں نے حالات کو بدلا!
اے میرے وطن کے سپوت! ویڈیو گیمز، بے مقصد گپ شپ اور سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا کو چھوڑ! اصل دنیا میں آ، جہاں تیری محنت تیری پہچان بن سکتی ہے!
جوان بازو وہی ہیں جو ملت کا جھنڈا تھامیں، نہ کہ وقت کے قاتل بن کر اپنی قوتیں زائل کر دیں!
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اپنی حالت پر روتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اٹھ کر دنیا کو بدل دیتے ہیں — تو بتا، تُو کس صف میں کھڑا ہوگا؟
اگر تیرے دل میں ذرا سا بھی ایمان ہے، ذرا سی بھی غیرت ہے، تو اُٹھ، اپنے وقت کو قیمتی بنا، علم سیکھ، ہنر پیدا کر، اور ملت کی ڈھال بن جا!
اے نوجوان! یاد رکھ، دشمن ہماری سرحدوں پر نہیں، ہمارے ذہنوں پر حملہ کر رہا ہے۔ جو قومیں اپنا شعور کھو دیتی ہیں، وہ بغیر گولی کے شکست کھا جاتی ہیں!
آج جو قومیں ترقی کر رہی ہیں، وہ اس لیے نہیں کہ ان کے پاس جادو ہے، بلکہ اس لیے کہ ان کے نوجوان جاگے ہوئے ہیں۔ اے میرے وطن کے بیٹے، اپنی نیند توڑ، اپنے بازو سنبھال، اور عمل کی دنیا میں اتر جا!

پیارے دوستو!!
عالمی تناظر میں آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ حالات کس قدر بدلتے جارہے ہیں ۔دنیا کس طرح ہماری جانب خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ہماری غفلت ہمارے لیے کسی طور پر بھی مناسب نہیں ۔آپ ہمت کیجئے ایک ہوجائیے ۔اپنی قابلیت بڑھائیے ۔۔دین اور وطن سے مخلص ہوجائیے اور دنیا میں چھاجائیے ۔

قارئین:
ممکن ہے کہ میری کچھ باتیں کڑوی ہوں لیکن ہوں گی سچ ۔میں کشمیر النسل ہوں ۔میرے آباو اجداد نے بہت کرب اور ملال میں شب و روز گزارے ۔اپنے کندھوں پر شہیدوں کی مبارک جسموں کو اُٹھایا۔لیکن طویل دکھ کی رات ہے کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہی ۔

پاکستان مسلم امہ کے لیے ایک امید ہے اس امید کو قائم رکھنے میں پاکستانی اہم ترین کردار ہیں ۔پیارے ہم وطنو ایک ہوجاوہمارے بٹوارے سے دشمن کو بہت طاقت ملتی ہے ۔لسانی اور مذہبی منافرت ختم کرکے وطن کے معاملے میں ایک پیج پر جمع ہوجاواور دن رات محنت کرو۔دین کو اپنا حاصل زندگی بنالو۔دیکھنا کائنات کا مالک راضی ہوکر ہمیں ہماراکھویاہواوقار عطافرمائے گا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو


 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 403 Articles with 629526 views i am scholar.serve the humainbeing... View More