انڈیا میں مسلمان دشمن حُکمراں جماعت بی جے پی نے مودی کی
سربراہی میں ہندوستان کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جو چاہا تھا وہ
اُس سے بڑھ کر زیادہ ہورہا تھا انڈین کشمیر میں
سیاحوں کی آمد میں تاریخی اضافہ ہو رہا تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عسکریت پسند سیاحوں کو ہلاک کر کے کون سا
مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟
جموں میں اکثریت انڈین کشمیریوں کے مُطابق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد
انڈین حکومت نے جموں کشمیر میں سیاحت کو ’ایک سیاسی پراجیکٹ کے طور پر
متعارف کروانے میں کچھ زیادہ دلچسپی لے رہی تھی.
کشمیر میں ’نارملسی‘ (یعنی حالات نارمل ہونے) کا معیار یہاں بسنے والے عام
شہریوں کی سوچ کا نہیں بلکہ سیاحوں کی آمد کو قرار دیا جارہا تھا۔
مودی حکومت کی جانب سے بتایا جاتا رہا کہ فلاں سال اتنے کروڑ سیاح کشمیر
آئے اور اس سال اتنے کروڑ سیاح آ گئے اور پھر دلی میں بڑے رہنماوٴں نے بھی
تعصب سے بھری ایسی ایسی باتیں کیں جن سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے
باسیوں کے دلوں میں یہ تاثر گیا کہ انڈیا سے سیاح وہاں سیرسپاٹا کرنے نہیں
بلکہ انڈیا کی جیت کا کشمیر میں جشن منانے آتے ہیں۔
جبکہ آج کی نوجوان نسل انتہا پسندانہ سوچ سے جلد ہی متاثر ہو کر بنیاد پرست
کی طرف مائل ہونے میں وقت بھی نہیں لگاتی ہے۔ لیکن یہ یقین سے کوئی نہیں
کہہ سکتا ایسا ہی ہے، لیکن خیال کیا جاسکتا ہے کہ جب سیاحوں کو کشمیر میں
سرکار کی سکیورٹی پالیسی کی کامیابی کا اشتہار بنایا گیا تو شائد کچھ
علاقائی نوجوان اس سے بھڑک گئے ہوں۔
جبکہ انڈین کشمیر کی بات یہاں قابل ذکر ہے کہ مودی سرکاری حلقوں میں کشمیر
کا محکمہ سیاحت انڈین حکومت کا ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کہلاتا ہے۔ کشمیر میں
سیاحتی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے محکمہ سیاحت کو اربوں روپے کی فنڈنگ
ملتی ہے جبکہ سیاحتی منصوبوں کی تشہیر کے لیے بھی حکومت ایک بہت خطیر رقم
خرچ کرتی ہے۔
گذشتہ برس وادی کشمیر میں انڈین حکومت کے اس دعوے پر کافی بحث ہوئی تھی کہ
ڈیڑھ کروڑ سے کم آبادی والے جموں کشمیر میں صرف ایک سال کے دوران دو کروڑ
سیاح آئے تھے۔
جبکہ مودی حُکمران کشمیر میں سیاح کی جوق در جوق آمد کو اپنی حکومت کی
کامیابی سمجھ رہے تھے جبکہ سیاح کسی بھی تعداد میں کشمیر مگر سیاحت کو
سکیورٹی حالات نارمل ہونے کی علامت سمجھنا واقعی مودی سرکار کی سوچ احمقانہ
تھی۔
جبکہ کشمیر میں تو کچھ سال کی خاموشی سے سیاحت میں اضافے اور نارمیلسی کے
دعووں سے مودی حُکمراں کے سیکورٹی ادارے بھی سمجھنے لگے تھے کہ سب کچھ ٹھیک
ہو گیا، یہ اُسی غفلت کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔
جبکہ انڈین کشمیر کے لوگوں میں اور ان کے عسکری گروپ ’دا ریزِسٹنس فرنٹ‘ کا
ایک بیان نقل کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں پچھلے چند سال کے
دوران 85 ہزار انڈین شہریوں کو ڈومیسائل سند
( کشمیر کی شہریت) دی گئی ہے.
اسی بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیر وادی کےکچھ مختلف فرنٹ نے دھمکی دی ہے
کہ ’جو لوگ سیاح بن کر آتے ہیں اور پھر یہاں آباد ہوتے ہیں، ان کے خلاف
تشدد کیا جائے گا۔
اس بیان پر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے مبصرین اپنی مختلف آرا رکھتے
ہیں۔
جبکہ مُقامی کشمیری ڈومیسائل قانون اُن درجنوں قوانین کے مقابلے میں چھوٹا
مسئلہ سمجھتے ہیں ہے جن کی وجہ سے کشمیریوں کو لگتا ہے کہ ’اُن کی عزّت،
شناخت اور اقتصادی آزادی اُن سے اب چھینی جا رہی ہے۔ ان ہی چیزوں کو لے کر
کشمیر میں انڈین پالیسیوں کے خلاف بہت سارا غصہ انڈین ظالم حکومت بی جے پی
پر آئے دن بڑھتا جارہا تھا. اور وقت کے ساتھ اِس غصے کو ظاہر کرنے والی
ساری سول آوازوں کو خاموش کر دیا گیا۔جبکہ اکثر سیاح فرصت کے لمحات گزارنے
کے لیے کچھ سرمایہ لے کر کشمیر آتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ جبکہ دیکھا
جائے تو ایک سیاح سیٹلر (آباد کار) نہیں ہو سکتا۔
جبکہ دونوں طرف کشمیری صدیوں سے اپنی شناخت اور اپنی زمین کو لے کر نہایت
حساس رہے ہیں۔
اس ہی طرح مختلف جرائد و اخبارات میں گذشتہ ماہ کشمیر کی اسمبلی میں یہ
انکشاف ہوا کہ 35 لاکھ افراد میں ڈومیسائل اسناد تقسیم کی گئیں جن میں سے
83 ہزار جموں کشمیر سے باہر رہنے والے غیر مسلم انڈین شہریوں کو دی گئیں۔
اس انکشاف پر حکمران جماعت اور حزب اختلاف نے یکساں شدت کے ساتھ احتجاج درج
کروایا تھا مگر اس کا کوئی رزلٹ نہیں ابھی تک آیا.
جبکہ ڈیموگرافی (آبادی کا تناسب) میں تبدیلی کے خدشات سے متعلق برصغیر کی
سیاست کا اہم ایشوز رہا ہے جیسے پاکستان میں ( کراچی شہر کی مُقامی آبادی
کو ایک پلاننگ کے تحت اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے)
اس وقت یہ ہی خدشہ کشمیری سیاست کا اہم حصہ بن رہا ہے. لیکن کشمیریوں کی
بڑی تعداد کے لیے سیاحت روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ وہ کبھی ایسی کسی کارروائی
کو جائز نہیں سمجھیں گے اور نہ اس کا ساتھ دیں جو اُن کے روزگار کو متاثر
کرے۔
دنیا جانتی ہے اس وقت کشمیریوں کی بھاری اکثریت سیاحوں کی بے مثال میزبانی
کرتی ہے جس کا اعتراف خود سیاح بھی کرتے ہیں۔
جبکہ 22 اپریل کو پہلگام والے واقعہ نے حملے کے بعد انڈین ٹی وی چینلوں پر
جو چیخ چیخ کر دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آوروں نے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر
لوگوں کو ہلاک کیا تاکہ صرف ہندوٴوں کو ہی مار سکیں۔
اس ہی حملے میں ایک متاثرہ خاتون کی ایسی ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں وائرل
ہے جس میں انھوں نے کہا کہ بیٹے سمیت انھیں بھی مارنے کی گزارش کے باوجود
حملہ آوروں نے ماں بیٹے کو یہ کہہ چھوڑ دیا کہ ’ہم آپ کو نہیں ماریں گے۔
جاوٴ (وزیراعظم) مودی کو بتا دو۔
جبکہ حملے کے دوسرے دِن جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی جانب
سے کیے گئے مظاہروں کی مثال دیکھ کر یہ ہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ’یہ صرف
کینڈل لائٹ مارچ نہیں تھا. انڈین عوام کو وہ سب کچھ نہیں دکھایا جاتا جو،
کشمیری قوم نے اس حملے کے ردعمل میں کیا۔واضح رہے بائی سَرن تک سڑک نہیں
جاتی اور پہلگام تک گھوڑے پر آنا پڑتا ہے۔ پلہ گام حملہ کے بعد ’کشمیریوں
نے اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے کھول دیے، خوفزدہ سیاحوں کو اپنے گھروں
میں پناہ دی ، کھانا کھلایا، ہسپتالوں میں خون کے عطیہ دیا، پانی اور
مشروبات پیش کیے، اپنی گاڑیوں میں انھیں پہلگام سے سرینگر اور یہاں سے
ایئرپورٹ پہنچانے کے لیے مفت سروس کا بندوبست کیا۔ خود انڈین افراد اس حملے
کو کسی پڑوسی ملک کو مورالزام قرار دینے کے خلاف بولتے ہوئے نظر آرہے ہیں.
اور اکثریت کا یہی خیال ہے کئی افراد تو اپنی حکومت کو ہی پہلگام واقعہ کا
ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ہیں اور یہ نعرہ ہر کشمری بچے کی زباں پر ہے.
“مودی کا الیکشن صوبہ بہار میں پہلگام واقعہ کریگا سلیکشن”
جبکہ کئی نوجوان کی ویڈیو وائرل ہے جو زخمی سیاح کو کندھے پر اُٹھا کر کئی
کلومیٹر کا سفر کر کے اسے بچاتا ہے، دوسرا نوجوان 11 سیاحوں کو بچاتا ہے۔
یہ سب انڈین عوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نامعلوم حملہ آور کا ایک جملہ
وائرل ہو گیا لیکن کشمیریوں نے جو اجتماعی ردعمل ظاہر کیا اُس کی بات بھی
ہونی چاہیے مگر وہ نہ سوشل میڈیا پر نہ ہی اخبارات و انڈین اسمبلیوں میں
نظر آئینگی.
حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی ترجمان افراٴ جان کہتی ہیں کہ ’کشمیر میں جو
کچھ بھی دہائیوں سے ہوا اُس کا براہِ راست اثر کشمیریوں پر پڑا لیکن ساتھ
ہی فورسز کے ہزاروں جوان، اقلیتی شہری اور سیاح بھی تشدد کی بھینٹ چڑھے
ہیں.
’دیکھا جائے تو انڈین حُکمرانوں کو اگر جموں و کشمیریوں کے بارے میں کوئی
بھی فیصلہ لینا ہو تو کشمیریوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیے بغیر وہ ادھورا
فیصلہ ہو گا۔ کشمیریوں کو دیوار کے ساتھ لگانے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے،
انھیں آن بورڈ لینا ہو گا۔ اس ہی میں انڈین حُکمرانوں اور جموں و کشمیر کی
بھلائی ہے.
|