پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جنگ ایک بار پھر خطے کو
خون، بربادی اور غیر یقینی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مگر اس جنگ کا تجزیہ محض
سرحدی تنازع، عسکری طاقت کے مظاہرے، یا "قومی سلامتی" کے بیانیے کی بنیاد
پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جنگ کے پیچھے چھپے طبقاتی، سامراجی اور
ریاستی مفادات کو بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سب سے پہلا ہمیں یہ دیکھنا ہے ۔ یہ جنگ کن کی ہے؟ اور کن کے لیے ہے؟
نہ تو یہ کسانوں کی جنگ ہے، نہ مزدوروں کی۔ نہ یہ بلوچ، سندھی، پنجابی،
کشمیری، یا دہلی، بہار، تامل، اور ناگا عوام کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ہے دو
سرمایہ دار جاگیردار ریاستوں کے حکمران طبقات کی، جو داخلی بحران، عوامی
بغاوتوں، معاشی تباہی، اور سیاسی کمزوری سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کے
بخارات میں خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مارکس نے ریاست کو ایک ایسا آلہ قرار دیا جو حاکم طبقے کے مفادات کا محافظ
ہوتا ہے۔ یہ جنگ اسی آلہ کی طرف سے طبقاتی نظام کے تحفظ کی جنگ ہے، نہ کہ
عوام کے مفاد کی۔
دوسری نمبر پر اس جنگ میں سامراجی کردار اور عالمی مفادات کون کو سمجھنے کی
اشد ضرورت ہے ۔
بھارت اور پاکستان کی اس جنگ کے پیچھے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سامراجی
قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ امریکہ اور دیگر سامراجی ممالک اس جنگ کو اپنے معاشی
و فوجی اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔کیونکہ سامراجیت،
سرمایہ داری کی اعلیٰ ترین اور جارحانہ شکل ہے، جو جنگ، قبضے اور منڈیوں کی
لوٹ مار کے ذریعے چلتی ہے۔ آج بھی یہ طاقتیں اس خطے میں اسلحہ، قرضوں،
انفراسٹرکچر اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی
پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
تیسرے نمبر پر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قومی شاونزم کے زریعے عوام کو کیسے
بیوقوف بنایا جارہا ہے ۔ جب بھی حکمران طبقات کو عوامی غصے، انقلابی
تحریکوں، مہنگائی اور جبر کے خلاف خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو وہ "قوم پرستی"
کا پرچم لہراتے ہیں۔ یہی ہو رہا ہے آج بھارت میں ہندوتوا فاشزم اور پاکستان
میں ملٹری نیشنلزم، دونوں جنگ کو مقدس قومی فریضہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں۔ کہ عوام کو قوم پرستی کے زہر سے آزاد کیے بغیر
انقلابی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔
اس جنگ نے محنت کش عوام پر گہرے اثرات مرتب کردئیے ۔ اس جنگ نے پہلے ہی
مہنگائی، بےروزگاری، اور ریاستی جبر کو نئی شدت دی ہے۔ پاکستان میں سیاسی
کارکنوں، قوم پرستوں، اور انقلابیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ، بھارت میں کشمیری
عوام اور ماؤ نواز انقلابیوں پر ظلم سب کچھ "قومی سلامتی" کے نام پر کیا جا
رہا ہے۔
اس وقت تمام ترقی پسند قوتوں کو"جنگ کو انقلاب میں بدلنے" کی حکمتِ عملی پر
عمل پیرا ہونا چاہئے ۔ کیونکہ "جہاں جبر زیادہ ہوتا ہے، وہیں مزاحمت کی
زمین بھی زرخیز ہوتی ہے۔ کیونکہ "یہ وقت ہے کہ جنگی فضا کو چیر کر طبقاتی
اتحاد، سامراج دشمن جدوجہد، اور قومی آزادی کی انقلابی تحریکوں کو منظم کیا
جائے۔
کیونکہ ہمیں جنگ نہیں، انقلاب! چاہئے ۔
پاکستان اور بھارت کے عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ ان کے لیے
نہیں، بلکہ ان کے خلاف ہے۔ اگر جنگ جاری رہی، تو غریب مزید غریب، اور
حکمران مزید طاقتور ہوں گے۔
ترقی پسند قوتوں کو چاہئے کہ جنگ کے خلاف انقلابی مزاحمت کو منظم کرے ۔
عوامی شعور کو قومی شاونزم سے نکال کر طبقاتی جدوجہد کی طرف موڑیں۔ سرحد
پار محنت کش طبقے سے یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ اور ہر قیمت پر
سامراجیت، فسطائیت اور جبر کے خلاف متحد ہوں۔ کیونکہ ہمیں توپوں کی نہیں،
محنت کشوں کی اتحاد کی ضرورت ہے۔
ہمیں جنگ بھوک ۔ مہنگائی اور سامراجی قوتوں سے لڑنی ہے ۔ ناکہ انکے آلہ کار
بنے کر ایندھن بن جائے ۔
|