سیاسی و سماجی ہم آہنگی
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
(کتاب مرکز، گلشن اقبال، کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مجلس ِمذاکرہ بعنوان ’سیاسی و سماجی ہم آہنگی) 11مئی 2025ء بمقام اردو بازار، گلشن اقبال میں صدارتی خطاب) |
|
سیاسی و سماجی ہم آہنگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کتاب مرکز قابل ستائش ہے کہ اس نے آج اس مجلس مذاکرہ کا انعقاد کیا۔ رواں دنوں میں علمی، ادبی تقریبات اور مشاعروں کا دور دورا ہے۔ان تقریبات میں علمی ادبی شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنا، کتابوں کے تعارف اور مشاعرے سے ہٹ کر سیاسی و سماجی حالات کو مددِ نظر رکھتے ہوئے ”سیاسی وسماجی ہم آہنگی“ جیسے موضوع پر گفت و شنید کرنے کی دعوت دی۔ آج کی نشست میں موجودہ حکمرانوں یا ان کے طریقہ کار یا نظام حکمرانی کو موضوع گفتگو بنانا مقصد نہیں بلکہ اس جانب توجہ منزول کرانا ہے کہ سیاست اور سماج میں ربط ہونا سیاست کی بنیاد ہے۔پیش نظر موضوع دو نکات پر مشتمل ہے اور دونوں ہی انسانی زندگی میں اہم ہیں۔ ایک سیاست دوسرا ہم آہنگی، یعنی”سیاسی و سماجی آہنگی“۔ سیاسی ہم آہنگی کو سمجھنے کے لیے ہمیں سیاست کا مطالعہ کرنا ہوگاجب سماجی ہم آہنگی کے لیے سماج سے جڑے مسائل اور ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جب بھی سیاست کا ذکر ہوگا یا سیاست میں ہم آہنگی کی بات ہوگی تو سیاست کا مطالعہ لازمی کیا جائے گا۔ اس مطالعہ میں سیاست، ریاست اور حکومت کے کردار کو تنقیدی و تحقیقی نظر سے دیکھا جائے گا۔ سیاست، سیاسی نظریات، حکومت اور حکومتی اقدامات، عوام کی فلا و بہبود کی منصوبہ سازی جیسے موضوعات کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ سیاست کے حوالے سے یونان کے مشہور فلسفی افلاطون اور ارسطو کے سیاست کے بارے میں نظریات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ارسطو اور سیاسیات سیاست اور سماج کے تناظر میں مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفی ارسطو سیاست کے نظریے کا بانی تصور کیا جاتا ہے اس کی شہرہ آفاق کتاب ”سیاسیات“ اس کی تمام تر تصانیف اور نظریات میں سیاست پر اس کے نظریے اور فلسفہ کو سبقت حاصل ہے۔ مغرب نے ارسطو اور افلاطون کے سیاسی نظریات کو اپنی زندگی گزارنے اور مملکت کے نظام کو چلانے کے لیے منتخب کیا۔ ارسطوں کے بعد آنے والے فلسفیوں مفکرین نے ارسطو کی کتاب سیاسیات کو فلسفہ میں ایک بہترین اضافہ قراردیا ہے۔ کسی نے کہا کہ ارسطو کی کتاب گہرے نظریات رکھنے والی کتاب ہے۔ در حقیقت ارسطو کی کتاب سیاست کسی بھی ملک پر حکومت کرنے کے فن سے آگاہی دینے والی کتاب ہے۔ ارسطو نے اپنے سیاسی نظریات میں عوام کی خوش حالی پر زیادہ رور دیا ہے اور سیاست کو خوشی اور خوش حالی کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے۔ افلاطون اور ریاست ارسطو سے قبل افلاطون نے بھی دیگر موضوعات کے علاوہ سیاسی نظریات پر مشتمل کتاب ”ریاست“ تحریر کی۔افلاطون کی اس تصنیف نے اس کی دیگر مطبوعات کے مقابلے میں زیادہ شہرت پائی۔ افلاطون نے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا۔ مغربی دنیا نے افلاطون کے نظریات کو اپناتے ہوئے سیاسی نظام کی بنیاد افلاطون اور ارسطو کے نظریات پر رکھی۔ آج جہاں جہاں جمہوری نظام حکومت رائج ہے وہ ارسطو اور افلاطون کے سیاسی نظریات لیے ہوئے ہے۔ ارسطو نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی اور اسکندر اعظم کا استاد رہا۔ یہ اپنے وقت کا جید فلسفی تھا۔ افلاطون کی کتاب صرف سیاست کے موضوع تک محدود نہ تھی بلکہ یہ اخلاقی، نفسیاتی، مذہبی، تعلیمی، تاریخی اور فلسفیانہ نظریات کی حامل تھی۔افلاطون ایک بہترین نظام زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔ سیاست میں ہم آنگی سیاست میں ہم آہنگی جتنی اہم اور ضروری ہے ہمیں اس میں اتنی ہی بے راہ رَوی، بنیادی مقاصد سے دوری، خود غرضی، اختیارات کا غلط استعمال، حکومت کو اپنا حق تصور کرنا، مد مقابل یا حسب اختلاف کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے انہیں ناجائز طریقے سے کچلنے کی کوشش کرنا جیسے اقدامات ہم آہنگی پیدا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو دشمن بنادیتے ہیں۔ سیاست وہ عمل ہے جس کے توسط سے اختیارات کاحصول عمل میں آتا ہے۔ حکومت ِ وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماج میں ہم آہنگی پیداکرے۔ انسان فانی ہے، اسی طرح اقتدار بھی فانی ہوتا ہے، ایک نہ ایک دن اقتدار کا تاج کسی اور کے سر پر سج جائے گا۔ وقتی عیش و نشاط کو ابدی تصور کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں روا داری، برداشت، عَفوودَر گُزرکو ذندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ سماج مختلف مذاہب، مختلف زبانوں، مختلف رسم و رواج رکھنے والے، مختلف سوچ و فکر رکھنے والوں کا مجموعہ ہوتا ہے اس میں اختلاف کا پایا جانا قدرتی عمل ہے، ان کے مابین شکایت اور اختلاف کا ہونابھی لازمی امر ہے، ایک گھر میں جس میں ایک ہی خاندان کے لوگ رہتے ہیں ان کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کا ہونا لازمی ہے، دنیا کے ممالک کے مابین اختلاف ہمارے سامنے ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک کے اختلافات ڈھکے چھپے نہیں۔ ان اختلافات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ا یک دوسرے کو ہالاک کردیا جائے، بلا جواز قید تنہائی میں رکھا جائے، ہر ایک کو جینے کا حق ہے، بات کرنے کا حق ہے، اختلاف کرنے کا حق ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی ہوگا جب سیاست میں ہم آہنگی ہوگی۔ سماج میں ہم آہنگی دنیا میں ایک اندازہ کے مطابق دس ہزار مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان مذاہب اور تہذیبوں میں ہم آہنگی ہوسکتی ہے، کیا ان سب کو ختم کر کے ایک مذہب کا پیروکار بنایا جاسکتاہے، یقینا نہیں، کسی صورت نہیں۔ان کے مابین اختلافات مختلف قسم کے اور شدیدہیں۔چنانچہ ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے روا داری، برداشت، عَفوودَر گُزراور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے سے ہم آہنگی آئے گی۔ کسی نے درست کہا کہ ”ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو“، اسی طرح مذہبی عقائد کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ”اپنا عقیدہ چھوڑو مت دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت“۔ یہی نہیں بلکہ ارشاد باری تعالیٰ سورہ الحجرات کی آیت 13/14میں ہے ترجمہ (اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانوکنبے اور قبیلے بنادیئے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے“۔ضروری ہے کہ ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنے پرور دگار کے احکامات و ہدایات پر عمل کریں تو سماجی ہم آہنگی پیدا ہوجانا کوئی مشکل نہیں۔اس حقیقت کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے ؎ یہ پہلا سبق تھا کتاب ِ ہدیٰ کا۔۔۔ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا کسی شاعر نے کیا خو ب کہا اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎ ملے گا کیا دلوں میں نفرتیں رکھ کر۔۔۔ڑی مختصر سے ہے زندگی مُسکرا کے ملا کرو (11مئی2025ء)
|