نِتاشا کول کا او سی آئی کارڈ منسوخ: بھارت میں آزادیِ اظہار کا قتل عام

پروفیسر کول، جو اس وقت یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر لندن میں مرکز برائے مطالعہ جمہوریت کی ڈائریکٹر ہیں، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انھوں نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر، اور مودی حکومت کی فسطائی پالیسیوں پر عالمی سطح پر آواز بلند کی۔ ان کی سب سے بڑی "خطا" شاید یہ تھی کہ انھوں نے امریکی کانگریس میں کھڑے ہو کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا۔

کسی قوم کے اصل خدوخال اس وقت سامنے آتے ہیں جب وہ اختلافِ رائے کا سامنا کرتی ہے—اور اگر اختلاف کی آوازیں سرحد پار سے اُٹھ رہی ہوں تو ان پر ریاستی ردِعمل اور بھی زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے ممتاز کشمیری نژاد برطانوی پروفیسر نِتاشا کول کی اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) حیثیت منسوخ کرنے کا فیصلہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے—جس نے نہ صرف بھارت کی جمہوری دعووں کو جھٹلایا، بلکہ اس کے اندرونی خوف اور فکری عدمِ برداشت کو بھی نمایاں کر دیا۔

پروفیسر کول، جو اس وقت یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر لندن میں مرکز برائے مطالعہ جمہوریت کی ڈائریکٹر ہیں، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انھوں نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر، اور مودی حکومت کی فسطائی پالیسیوں پر عالمی سطح پر آواز بلند کی۔ ان کی سب سے بڑی "خطا" شاید یہ تھی کہ انھوں نے امریکی کانگریس میں کھڑے ہو کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا۔

بھارت کی علمی شہریت کا انتقام

بھارتی وزارت داخلہ نے اُن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ “بھارت مخالف سرگرمیوں” میں ملوث ہیں اور اپنی تحریروں اور بیانات کے ذریعے بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کرتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے خیالات جمہوری اصولوں اور علمی تحقیق پر مبنی ہیں—نہ کہ کسی تخریبی ایجنڈے پر۔

پروفیسر کول نے اس اقدام کو "ظالمانہ، انتقامی اور بدنیتی پر مبنی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ٹرانس نیشنل ریپریشن (Transnational Repression) یعنی "سرحد پار جبر" کی واضح مثال ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بھارت نے فکری اختلاف رکھنے والی شخصیت کو نشانہ بنایا ہو۔ انگد سنگھ جیسے صحافی، آکار پٹیل جیسے کارکن، اور کئی دیگر بیرونِ ملک مقیم ناقدین کو یا تو ملک بدر کیا گیا یا ایئرپورٹ سے واپس بھیجا گیا۔

اوورسیز سٹیزن آف انڈیا یعنی OCI کا تصور اصل میں بھارت سے باہر مقیم بھارتی نژاد افراد کے ساتھ تعلق مضبوط بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر اب یہی کارڈ فکری وفاداری کے امتحان کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ 2019 کی ترمیم شدہ شہریت قانون کے بعد بھارتی حکومت کو اس کارڈ کی منسوخی کے لیے وسیع اختیارات حاصل ہو چکے ہیں—جن کی بنیاد زیادہ تر مبہم اور سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ عمل بنیادی انسانی حقوق اور عالمی جمہوری اقدار کے سراسر منافی ہے۔ جیسا کہ ماہرِ آئین گوتَم بھاٹیا نے لکھا، "یہ اقدام بھارت کے آئینی ڈھانچے میں فکری آزادی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔"

بھارت میں جہاں فکری اختلاف جرم بنتا جا رہا ہے، وہیں پاکستان، اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود، اب بھی اختلافِ رائے کو کسی نہ کسی سطح پر برداشت کرتا ہے۔ یہاں سیاسی مباحث، ٹی وی ٹاک شوز، پارلیمانی تنقید اور صحافتی آزادی کا وجود زندہ ہے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں غیر ملکی صحافیوں کو داخلے کی اجازت دی جاتی ہے، جو کہ مودی کے بھارت میں مکمل طور پر بند ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کون سا ملک سچ سے ڈرتا ہے؟ اور کون سا ملک سچ کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے؟

پروفیسر نِتاشا کول کو اُن کے آبائی وطن سے جُدا کرنا صرف ایک فرد کو سزا دینا نہیں، بلکہ پوری علمی دنیا کو ایک پیغام دینا ہے—کہ اگر آپ ہمارے بیانیے سے اختلاف کریں گے تو آپ کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا سچ کو ویزے کی ضرورت ہے؟ کیا دلیل کو ڈیپورٹ کیا جا سکتا ہے؟ کیا تحقیقی سوچ کو ریاستی نوٹس سے ختم کیا جا سکتا ہے؟

بھارت نے اپنی جمہوری چادر میں جو چھید کر لیے ہیں، وہ صرف اس کے مخالفین کو نہیں، بلکہ اس کے اپنے اداروں کو بھی کمزور کرتے جا رہے ہیں۔ جب ایک ریاست سوال سے گھبرانے لگے تو سمجھ لیجیے کہ وہ طاقتور نہیں، بلکہ خوفزدہ ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس لمحے سے سبق سیکھے—اور اپنی فکری سرزمین کو مزید کشادہ کرے۔ کیوں کہ اختلاف ختم ہونے سے حکومتیں مضبوط نہیں ہوتیں، بلکہ سماج بانجھ ہو جاتا ہے۔
 

Qurat ul ain Ali Khawaja
About the Author: Qurat ul ain Ali Khawaja Read More Articles by Qurat ul ain Ali Khawaja: 37 Articles with 11951 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.