سچّے موتیوں کی تلاش.... 2 # part

بسم الله الرحمن الرحيم

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي

سورة البقرة 218

بے شک وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے راستے میں یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بہت بخشنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا ہے۔

پہلا اثر کیا ہے۔۔۔ کہ اپنے کوئی گناہ کیا اور وہ معاف ہو گیا آپ ایسا سمجھ لیں فرض کریں آپ سے کوئی جرم ہو گیا اب اپنے اقرار کیا اس بناء پر جج نے کہا اسے معاف کہ دو اب آپ جیل نہیں جارہے ۔ اب جج یہ تو نہیں کرے گا کہ ان کو گھر ، گاڑی وغیرہ بھی دے دو
بس اب آپ جیل نہیں جارہے اب بس جرم ہٹ گیا ہے پر اب اس پر آپکو نعمتیں نہیں نوازی جارہیں کوئی آوارڈ نہیں دیا جارہا بس مصیبت سے بچے ہو مصیبت سے بچنے کے لیے ہمیں اللہ کا کونسا نام چاہئیے (غفور )

لیکن باقی دنیا میں ہمارا خیال رکھا جائے ہمیں ہر طرف سے نعمتیں دی جائیں ہماری حفاظت کی جائے یہ سب غفور میں نہیں ہے اب ذرا واپس بات کرتے ہیں رحیم یہاں لفظ رحم کی کیا ضرورت تھی تو رحم کسے کہتے ہیں؟ ماں کے پیٹ کو رحم کہتے ہیں جب بچہ رحم میں ہوتا ہے نہ تو اسکا ہر طرف سے خیال رکھا جاتا ہے اسکی حفاظت صحت غذاء ضرورت تمام چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اسکی پوری دنیا Cover ہے ۔ رحم کا مطلب ہے اللہ اپنے بندے کو اپنی رحمت میں اپنی حفاظت میں اپنی محبت میں رکھیں یعنی ہر طرف سے اسکا خیال رکھیں ۔ تو وہ اسکے اوپر رحیم ہے۔
اب ہم واپس چلتے ہیں آیت کی طرف جہاں بات ہجرت اور جہاد کی ہو رہی ہے۔
ہماری ایک خوش نصیبی سمجھ لیں یا بدنصیبی کے ہمارے بہت سے الفاظ عربی سے ملتے ہیں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے ہمیں بہت سے مشابہ الفاظ ملتے ہیں۔
پر ان کے عربی میں معنیٰ اور استعمال میں اور اردو کے
معنیٰ اور استعمال میں زمین آسمان کا فرق ہے جیسے لفظ رحم کو ہی لے لیں ہمارے ہاں یہ لفظ عام طور پر استعمال ہوتا ہے (جیسے کہ مجھ پر رحم کھاؤ) یعنی سزاء سے بچنے کے لیے ہم اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں عربی میں رحم کا تعلق ، سزاء سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ عربی میں رحم کا تعلق ہے کسی کا خیال کرنے سے کسی سے محبت کرنے سے کسی کا پوری طرح سب ضروریات پوری کرنے سے ہے۔ جس کو اس نے مانگا بھی نہ ہوں بچہ مانگتا ہے کیا۔۔؟ بچہ کے پاس تو ابھی زبان بھی نہیں ہے مانگنے کے لیے اسکے مانگے بغیر پوری طرح سے تمام ضروریات پوری ہورہی ہیں۔
اسی طرح اس آیت میں لفظ ہجرت اور جہاد وہ نہیں ہیں جیسے ہم انہیں اردو کی رو سے دیکھ رہے ہیں۔ قرآن ذکر ہے آپکا اور میرا اس میں حکم ہے آپکے لیے اور میرے لیئے اور اس کرہ ارض پر موجود ہر شخص کے لیے ہمیں بس اس پر تفکُّرّ اور تدبّر کرنے کی ضرورت ہے الله تعالٰی نے ہمارے لیے چار کتابیں اتاری ہیں۔ تورات قوانین کی کتاب ہے ، انجیل اخلاقیات ، زبور دعاؤں کی کچھ روایت میں آتا ہے کہ زبور مناجاتوں نظموں کی کتاب بھی ہے اور اللہ تعالٰی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو آواز بھی بہت خوبصورت دی تھی تو جب وہ اسے پڑھتے تو بے زبان جانور بھی ٹہر کر انھیں سنا کرتے تھےاور آخری کتاب قرآن اس میں تینوں موضوع ہیں مگر اسکا اصل موضوع انسان ہے۔
اس آیت کے یہ الفاظ ہمیں بہت بڑا سبق دینے والے ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی مجھے ان دو الفاظ کے معنی سمجھ نہیں آئے مجھے بہت بعد میں جاکر معلوم ہوا کیوں بار بار اللہ پاک نے فرمایا ہے قرآن میں (غور و فکر کرو سوچو تو سہی) غور و فکر کی کیا ضرورت ترجمہ موجود تو ہے پر یاد رکھیں ترجمہ میں اصل موجود نہیں ہے اصل کیلئے اپنے حصّے کے خزانے کے لیے آپکو اور مجھے سمندر میں غوطہ زن ہونا ہی پڑے گا ۔ چلیں آئیں ان الفاظ کا پیچھا کرتے ہیں ۔

لفظ " جہاد " ہمارے ہاں لفظ جہاد اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کو کہا جاتا یعنی قتال-
قتال اور جہاد میں بہت فرق ہے جہاد بہت وسیع تر معنی رکھتا ہے ۔ قتال جنگ ہے۔ یعنی قتال جہاد ہو سکتا ہے پر جہاد قتال نہیں ہو سکتا جہاد لازمی طور پر قتال کا نام نہیں ہے۔ جہاد کے لفظ کو missunderstood کیا گیا ہے یعنی کے صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا۔ جہاد لفظ جہد سے نکلا ہے (یعنی کوشش اور طاقت ) یعنی الله کے دین پر خود عمل کرنے کے لیے یا دوسروں کو اسکی طرف بلانے کے لیے جو کوشش کی جاتی ہے۔ وہ جہاد کہلاتی ہے۔ وہ زبان سے بھی ہو سکتی ہے ہاتھ سے بھی قلم سے بھی ہو سکتی ہے وہ علم سے بھی ہو سکتی ہے جیسے قرآن پاک میں آتا ہے ترجمہ : "قرآن پاک کی تعلیم کو عام کرنا بھی جہاد ہے ۔" یعنی جہاد کا معنی جنگ نہیں ہے یہ اسی طرح ہے جیسے کوّا کالا ہوتا ہے لیکن ہر کالی چیز کوّا نہیں ہوتی ۔
جہاد بہت وسیع تر چیز ہے جہاد الله کے دین پر عمل کرنے کی اور اسکو عام کرنے کی کوشش جہاد ہے۔ مثٙٙلا اپنے آپ کو دین پر جمانا جہاد با النفس ہے جب آپ اللہ سے دعا کرتے ہیں یا رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا تو پہلی رکاوٹ آپ کا نفس ہوتا ہے۔ کسی طرح آپ اپنے نفس کو آمادہ کر لیتے ہیں پھر شیطان وسوسے ڈالتا پھر (خوف) آجاتا ہے پھر معاشرہ اور کبھی تو اپنی اولاد اور ماں باپ رکاوٹ بنتے ہیں تو زندگی کے ہر مرحلے پر ہر روکاوٹ جو الله کے راستے پر چلنے اور چلانے پر آئے اسکو ہٹانے کا نام جہاد ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
 

Anam Misbah
About the Author: Anam Misbah Read More Articles by Anam Misbah: 7 Articles with 4271 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.