سیرتِ عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ (حصہ چہارم)اخری

واقعات و تعینِ عمر مبارکہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چوتھے سال ماہِ شوال مطابق جولائی 614ء میں ہوئی اور آپ کی وفات بروز منگل 17 رمضان 58ھ مطابق 13 جولائی 678ء کو ہوئی۔ شمسی سال کے اعتبار سے مدت حیات مکمل 64 سال ہوتی ہے اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ ہوتی ہے یعنی ماہِ شوال 4 نبوی سے ماہِ رمضان 58ھ تک۔ اِس کو باآسانی یوں شمار کیا جاسکتا ہے کہ 4 نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 44 سال تھی یعنی 44 سال میلادی۔
11ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو وہ 64 سال میلادی تھا۔ ہجرت کا سال میلادی 53 تھا۔
اگر 58ھ میں سال میلادی 53 جوڑ دئیے جائیں تو 111 سال ہوتے ہیں۔ اِن 111 سالوں میں 44 سال نفی کردیں (جو ولادت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ہے اور اُس میں سال میلادی 44 تھا) تو باقی رہے 67 سال۔ یعنی 4 نبوی سے 58ھ تک 67 سال قمری ہوتے ہیں جو قریب قریب آپ کی مدت حیات 66 سال 11 ماہ کے ہے۔

نماز چاشت پابندی سے اداء فرماتیں۔
چاشت کی 8 رکعت ادائیگی آپ کا معمول تھا.
اکثر فرمایا کرتیں تھیں:
اگر میرے والدین کو بھی زندہ کردیا جائے، میں پھر بھی یہ رکعتیں ترک نہ کروں گی. (مراد اِس سے یہ تھا کہ اگر میرے والدین زندہ ہوکر آئیں اور مجھے اِس نماز سے روکیں تو میں اِس نماز کی ادائیگی نہیں چھوڑوں گی)۔
نمازِ چاشت کی ادائیگی میں اکثر طویل وقت صرف ہوجاتا،
عبداللہ بن ابی موسیٰ تابعی کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے ابن مدرک نے کچھ سوالات کے جوابات کی خاطر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ جوابات دریافت کرکے لاؤ، جب میں حجرہ کے قریب پہنچا تو آپ رضی اللّٰہ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ اُن کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر اِنتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے مجھے بتایا کہ اُنہیں بہت دیر لگے گی، میں نے اُسی اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں اُن سے کس طرح اجازت طلب کروں؟
اُس نے کہا کہ یوں کہو:
السَلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ، میں اِس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور آپ سے سوالات کے جوابات دریافت کرنے لگا۔
تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔
قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں (یومِ عیدین کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا اِس لیے اِس روایت میں افطار سے مراد یہی ہے)۔
قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیت مبارکہ پڑھ رہی تھیں:
فَمَنَّ اللہُ عَلَیْنَا وَ وَقَانًا عَذَابَ السَّمُوْمِ، اور دعاء کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اِس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہوگیا، یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اُکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اِسی حالت میں کھڑی نماز اداء کر رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔
جب آپ یہ آیت وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ پڑھتیں تو آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا [ (یہ سورۃ الاحزاب کی آیت 33 ہے اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے:
"اپنے گھروں میں ٹھہری رہو")۔
آپ رضی اللّٰہ شدت سے ادائیگی حج کی پابند تھیں۔ آپ رضی اللّٰہ نے حجۃ الوداع کے بعد (سنہ 11ھ سے 57ھ / 632ء تا 677ء تک) مزید 47 حج اداء فرمائے۔
آپ سے احادیث کو روایت کرنے والے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں مشہور حضرات یہ ہیں:

ابراہیم بن یزید النخعی (مرسلاً)، ابراہیم بن یزید التمیمی، اسحاق بن طلحہ، اسحاق بن عمر، الاسود بن یزید، ایمن المکی، ثُمامہ بن حزن، جُبیر بن نُفیر، جُمَیع بن عمیر، الحارث بن عبداللہ بن ابی ربیع ہ المخزومی، الحارث بن نوفل، حسن ابن علی، حمزہ بن عبداللہ بن عمر، خالد_بن_سعید، خالد بن معدان، خباب، خبیب بن عبداللہ بن الزبیر، خلاس الہجری، خیار بن سلمہ، خیثمہ بن عبدالرحمن، ذکوان السمان، مولیٰ ذکوان، ربیع ہ الجرشی، زاذان ابو عمر الکندی، زُرار ہ بن اوفی، زِر بن حُبَیش، زید بن اسلم، سالم بن ابی الجعد، زید بن خالد الجُہنی، سالم بن عبداللہ، سالم سبلان، سائب بن یزید، سعد بن ہشام، سعید المَقبری، سعید بن العاص، سعید_بن_مسیب، سلیمان بن یسار، سلیمان بن بریدہ، شریح بن ارطاہ، شریح بن ھانی، شریق الہوزنی، شقیق ابو وائل، شہر بن حوشب، صالح بن ربیع ہ بن الہدیر، صعصہ، طاووُس، طلح ہ بن عبداللہ التیمی، عابس بن ربیعہ، عاصم بن حمید السکونی، عامر بن سعد، الشعبی، عباد بن عبداللہ بن الزبیر، عباد ہ بن الولید، عبداللہ بن بریدہ، ابوالولید عبداللہ بن الحارث البصری، عبداللہ ابن الزبیر، عرو ہ ابن الزبیر، عبداللہ بن شداد اللیثی، عبداللہ بن شقیق، عبداللہ بن شہاب الخولانی، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ بن فروخ، عبداللہ بن ابی مُلَیکہ، عبداللہ بن عبید ابن عمیر، ابن عمیر، عبداللہ بن حکیم، عبداللہ بن ابی قیس، عبداللہ و القاسم، ابنا محمد، عبداللہ بن ابی عتیق محمد، عبدالرحمن بن ابی عتیق، عبداللہ بن واقد العمری، عبداللہ بن یزید، عبداللہ البھی، عبدالرحمن بن الاسود، عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام، عبدالرجمن بن سعید بن وہب الہمدانی، عبدالرحمن بن شُماسہ، عبدالرحمن بن عبداللہ بن سابط الجُمَحی، عبدالعزیز، والد ابن جُریج، عبید اللہ بن عبداللہ، عبیداللہ بن عیاض، عرو ہ المزنی، عطاء بن ابی رباح، عطاء ابن یسار، عکرمہ، علقمہ، علقمہ بن وقاص، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، عمرو بن سعید الاشدق، عمرو بن شرحبیل، عمرو بن غالب، عمرو ابن میمون، عمران بن حطان، عوف بن الحارث، عیاض ابن عروہ، عیسیٰ بن طلحہ، غُضیف بن الحارث، فرو ہ بن نوفل، القعقاع بن حکیم، قیس بن ابی حازم، کثیر بن عبید الکوفی، کُریب، مالک بن ابی عامر، مجاہد، محمد بن ابراہیم التیمی، محمد بن الاشعث، محمد بن زیاد الجُمَحی، ابن سیرین، محمد بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام، ابوجعفر محمد الباقر، محمد بن قیس بن مخرمہ، محمد بن المنتشر، محمد ابن المنکدر، مروان العقیلی ابولبابہ، مسروق، مصدع ابو یحیی، مُطرف بن الشِخِیر، مِقسَم، مولیٰ ابن عباس، المطلب بن عبداللہ بن حنطب، مکحول شامی، موسیٰ بن طلحہ، میمون بن ابی شبیب، میمون بن مہران، نافع بن جُبیر، نافع ابن عطاء، نافع العمری، نعمان بن بشیر، ہمام بن الحارث، ہلال ابن یساف، یحیی بن الجزار، یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب، یحیی بن یعمر، یزید بن بابنوس، یزید بن الشِخِیر، یعلیٰ بن عقبہ، یوسف بن ماھَک، ابواُمام ہ بن سہل، ابوبرد ہ بن ابی موسیٰ، ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث، ابوالجوزاء الربعی، ابو حذیفہ الارحبی، ابو حفصہ، ابو الزبیر المکی، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو الشعشاء المحاربی، ابو الصدیق الناجی، ابو ظبیان الجنبی، ابو العالیہ رُفَیع الریاحی، ابوعبداللہ الجدلی، ابوعبید ہ بن عبداللہ بن مسعود، ابوعثمان النہدی، ابو عطیہ الوادعی، ابو قلابہ الجرمی، ابو الملیح الہذلی، ابو موسیٰ الاشعری، ابو ہریرہ، ابو نوفل بن ابی عقرب، ابو یونس مولیٰ عائشہ، بُھَیَّہ، مولا ہ الصدیق، جسر ہ بنت دُجاجہ، ذِفر ہ بنت غالب، زینب بن ابی سلمہ، زینب بنت نصر، زینب السہمیہ، سمیہ البصریہ، شُمَیسہ العتکیہ، صفیہ بن شیبہ، صفیہ بنت ابی عبید، عائشہ بنت طلحہ، عمر ہ بنت عبدالرحمن، مرجانہ، والدہ علقمہ بن ابی علقمہ، معاذ ہ العدویہ، ام کلثوم بنت ابی بکر (بہن) ، اُم محمد۔

ایک صحابی کا بیان ہے کہ آپ رضی اللّٰہ نے ایک روز میں 70 ہزار درہم اللہ کی راہ میں خرچ کیۓ اور خود پیوند لگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔ طیبہ صدیقی اثر ترقی اسلام پر ہے جو تفقہ آپ نے دین میں حاصل کیا اور جو تبلیغ آپ نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو مساعی انہوں نے کیں اور حو علمی فوائد انہوں نے فرزندان امت کو پہنچائے وہ ایسک درجہ ہے جو کسی اور زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں۔

آپ رضی اللّٰہ کے بھانجے حضرت عروہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کو دیکھا کہ آپ نے 70 ہزار درہم خیرات کیے اور اپنے کرتے کا دامن جھاڑ کر کھڑی ہوگئیں۔
ایک بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس دو تھیلے بھر کر ایک لاکھ کی رقم بھیجی، آپ نے ایک طباق منگوایا، اُس دن آپ کا روزہ تھا۔ آپ وہ رقم لوگوں میں بانٹنے لگیں۔ جب شام ہوگئی تو کنیز کو افطاری لانے کا حکم دیا، اُمِ ذرہ بولیں:
اُم المومنین! آپ اِن درہموں میں سے ایک درہم کا گوشت منگو لیتیں جس سے آپ روزہ کھول لیتیں۔ فرمایا: مجھے مت کہو، اگر تم مجھے یاد دلا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی۔
واضح رہے کہ آپ کی خدمت میں ایسے نذرانے حضرت امیر معاویہ رضي الله عنه.حضرت عبداللہ بن زبیر رضي الله عنه کی جانب سے پیش کیۓ جاتے تھے کہ اس زمانہ میں افواج اسلامی کثرت سے فتوحات حاصل کررہی تھیں۔
امام ابو نُعَیم الاصبہانی نے اِس روایت کو تفصیلاً بیان کیا ہے کہ:

اُم ذرہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ (کنیز) تھیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ: حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو 80 ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لیے) ایک تھال منگوایا اور آپ اُس دن روزے سے تھیں۔
آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے بیٹھ گئیں۔ پس شام تک اُس مال سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہوگئی تو آپ نے فرمایا: اے لڑکی! (دراصل جاریہ کنیز کو عربی_زبان میں کہتے ہیں، ہم نے یہاں جاریہ کا معنی کنیز نہیں بلکہ لڑکی سے کیا ہے) میرے افطار کے لیے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی۔ پس اُم ذرہ نے عرض کیا: کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے، اُس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں؟ جس سے آج ہم افطار کرتے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اب میرے ساتھ اِس لہجے میں بات نہ کرو، اگر اُس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔
تابعی حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سونے کا ایک ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی عورت نہیں دیکھی، اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہوجاتیں تو آپ اُنہیں (غرباء اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں، جبکہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے پاس کل کے لیے بھی کوئی چیز نہیں بچا رکھتی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔
ثرید اُس کھانے کو کہتے ہیں جس کے شوربے میں روٹی بھگودی جائے اور بعد میں تناول کی جائے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ثرید تمام کھانوں میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔

تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا: اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجئیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔
میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی، اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔
دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، اُنہیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے، اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔
بکثرت احادیث و روایات سے یہ مسلمہ ہے کہ بوقت نکاح آپ کی عمر 6 سال تھی، یہاں سات سال سے مراد یہ ہے کہ بوقت نکاح 6 سال مکمل ہوکر ساتویں سال کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! جنت میں آپ کی بیویاں کون ہیں؟ فرمایا: اُن میں سے ایک تم بھی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئیں تاکہ مجھ پر موت آسان ہوجائے، گویا میں اُن کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔
تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے اُم المومین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ناراضی اور رضا مجھ سے چھپی نہیں رہتی۔ میں بولی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کس طرح پہچان جاتے ہیں؟ فرمایا: رضا کے وقت جب تم قسم کھاتی ہو تو محمد کے رب کی قسم کہتی ہو اور ناراضی کے وقت ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہو۔ میں بولی: یارسول اللہ! آپ سچ فرماتے ہیں۔

تابعی مسروق جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث بیان کرتے تو فرماتے: مجھ سے یہ حدیث صدیقہ بنت صدیق نے اور اللہ کے محبوب کی معصومہ محبوبہ نے بیان فرمائی۔ یہ اُن کی اُم المومنین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے۔

حضرت ابی حازم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ کون پیارے ہیں؟ فرمایا: عائشہ، بولے: میں مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں۔ فرمایا: اُن کے والد۔

حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے تو فرماتے: اللہ کی قسم! عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی جھوٹ نہیں باندھ سکتیں۔

زیارت حضرت جبرائیل علیہ السلام

آپ فرماتی ہیں کہ: میں انے اپنے اِس حجرے کے دروازے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے، پھر جب آپ اندر تشریف لائے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کون تھے جن سے آپ چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے؟ فرمایا: کیا تم نے اُنہیں دیکھا تھا؟ میں بولی: جی۔ فرمایا: تم نے اُنہیں کس کے مشابہ پایا؟ میں بولی: دحیہ کلبی کے۔ فرمایا: تم نے فراوانی کے ساتھ خیر دیکھی، وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں بولی: وعلیہ السلام، اللہ تعالیٰ اِس آنے والے کو بہتر صلہ عطاء فرمائے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے اُن کو (یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔

امام بخاری نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: اُن پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دیکھ سکتے ہیں، وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔

روایت کردہ احادیث کی تعداد

آپ سے 2210 احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم روایت ہیں جبکہ اِن میں سے 174 متفق علیہ ہیں، یعنی اِن کو امام بخاری نے صحیح بخاری اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کیا ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایات 174 لی ہیں جن میں امام بخاری 54 میں منفرد ہیں اور امام مسلم 69 احادیث میں منفرد ہیں ۔
2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی نے سیرت عائشہ رضی اللّٰہ میں لکھا ہے مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرف مسند احمد بن حنبل میں ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 2524 ہے۔

اگر صحاح_ستہ میں مکرر رویات حذف نہ کی جائیں تو روایات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعداد یوں ہے:

صحیح بخاری: 960 احادیث۔
صحیح مسلم: 761 احادیث۔
سنن ابوداود: 485 احادیث۔
سنن نسائی: 690 احادیث۔
جامع سنن ترمذی: 535 احادیث۔
سنن ابن ماجہ: 411 احادیث۔
موطاء_امام_مالک: 141 احادیث۔
مشکوٰۃ المصابیح: 553 (روایاتِ احادیث کا یہ مجموعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس لیے اِنہیں شمار نہیں کیا گیا)۔
سنن الدارمی: 200 احادیث۔
مسند امام احمد بن حنبل: 2524 احادیث۔
موطاء امام محمد: 80 احادیث۔
صحاح_ستہ کے ساتھ موطاء_امام_مالک کی روایات کو جمع کرلیا جائے تو تعدادِ روایات 3983 ہوتی ہے۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔
سنہ 58ھ مطابق 678ء میں جب آپ کی عمر مبارک 67 سال کے قریب قریب تھی کہ ماہِ رمضان 58ھ/ جولائی 678ء میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔

جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں:
کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی،
کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی،
کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی،
کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔
عیسیٰ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا کہ اِن تمناؤں سے کیا مراد تھا؟ کہنے لگے:
اُم المومنین اِن تمناؤں سے دعاء میں توبہ کا وسیلہ اختیار فرما رہی تھیں (یہ تمام تمنائیں آپ کسر نفسی میں فرما رہی تھیں حالانکہ آپ ازل سے اُم المومنین کے خطاب سے سرفراز ہوئی ہیں)۔
اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)

ذکوان جو آپ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ جب آپ علیل ہوئیں تو میں اجازت حاصل کرکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، آپ کے سرہانے آپ کے بھتیجے عبداللہ بن عبدالرحمٰن تھے۔ میں نے کہا: آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آنا چاہتے ہیں، اُس وقت آپ دنیاء سدھارنے والی تھیں، بولیں: ابن عباس کو نہ آنے دو، اِس وقت مجھے اُن کی اور اُن کی تعریفوں کی ضرورت نہیں۔ ذکوان نے کہا: اُم المومنین! ابن عباس آپ کے ایک نیک و صالح فرزند ہیں۔ آپ کو سلام کرنے اور رخصت کرنے آئے ہیں۔ بولیں: اچھا تو اگر تم چاہو تو اُنہیں بلا لو، آخر کار میں نے اُنہیں بلا لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آتے ہی آپ کو سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بولے: بشارت ہو۔ بولیں: کس چیز کی؟ کہنے لگے: اُس کی جو آپ کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور دیگر احباب کی ملاقات کے درمیان میں ہے، بس جسم سے روح نکلنے کی دیر ہے آپ اُن سب سے جاکر ملاقات کریں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی لاڈلی بیوی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ چیز سے ہی محبت کیا کرتے تھے اور دیکھیے ابواء کے دن آپ کا ہار کھو گیا تھا، اُسے ڈھونڈنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزل میں صبح تک ٹھہرے رہے، لوگوں کے پاس پانی نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ مسلمانوں کو یہ سہولت آپ کی بدولت نصیب ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اُتاری جسے روح الامین لے کر آئے، اب ایسی کوئی مسجد نہیں جس میں آپ کی براءت کی آیتیں صبح و شام نہ پڑھی جاتی ہوں۔ آپ فرمانے لگیں: ابن عباس! تعریفیں چھوڑو، اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری تو یہ تمناء ہے کہ میں بھولی بسری ہوئی جاتی۔

تابعی ابن ابی عتیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جب کہ وہ علیل تھیں، بولے: اُم المومنین کسی طبیعت ہے؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، فرمانے لگیں: اللہ کی قسم یہ موت ہے.

عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا. اپنے غلام ذکوان کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے منگل 17 رمضان 58ھ مطابق 13 جولائی 678ء کی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔
آپ کی وفات کی خبر اچانک ہی تمام مدینہ منورہ میں پھیل گئی اور انصارِ مدینہ منورہ اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا،
بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔
نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اُن دِنوں مدینہ منورہ کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ مروان بن حکم مدینہ منورہ میں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گیا ہوا تھا اور مدینہ منورہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔ بوقت تدفین آپ رضی اللّٰہ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
آپ رضی اللّٰہ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔ شب بدھ میں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔

اُم المومنین حضرت ام سلمہ ہند_بنت_ابی_امیہ رضی اللہ عنہا لوگوں کی آہ و فغاں سن کر بولیں: عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لیے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں۔
امام ابوداؤد طیالسی نے اُم المومنین حضرت ام سلمہ ہند_بنت_ابی_امیہ کا قول نقل کیا ہے کہ جب اُنہیں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی وفات کی خبر معلوم ہوئی تو بولیں: اللہ اُن پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سواء وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔

عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے والد سے پوچھا:
لوگوں نے اُم المومنین کا غم کیا کیا؟ بولے: آپ کی وفات پر ہر وہ غمگین تھا جس جس کی آپ ماں تھیں۔
اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی سیرت مبارکہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 913 Articles with 645488 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More