ایک ماں جب کسی بچے کی تکلیف کو محسوس کرتی ہے تو وہ صرف
اپنی اولاد کی نہیں، بلکہ ہر اس معصوم کی ماں بن جاتی ہے جو کسی دکھ یا
بیماری سے نبرد آزما ہو۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے حال ہی میں جو
قدم اٹھایا، وہ سیاست سے بڑھ کر انسانیت، ماں کی ممتا اور ایک معاشرتی
انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ "سی ایم انسولین برائے ذیابیطس" کا یہ منفرد
پروگرام ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا کمسن بچوں کے لیے ایک ایسی روشنی کی کرن
ہے جس نے نہ صرف ان بچوں کی زندگی میں امید جگائی، بلکہ والدین کے دلوں میں
بھی سکون اور تحفظ کا احساس پیدا کیا۔یہ کوئی عام حکومتی اعلان نہیں تھا جو
صرف فائلوں اور نیوز کانفرنسوں تک محدود رہتا۔ مریم نواز خود پاکستان پوسٹ
کے رائیڈرز کے ہمراہ بچوں کے گھروں میں گئیں، ان کے گال تھپتھپائے، دعائیں
لیں، انسولین کارڈز اور ضروری طبی سامان پہنچایا۔ سبزہ زار کے واسع عدنان
ہوں یا جمیل ٹاؤن کی زینب وحید اور زین شہزاد، یہ بچے کسی وی آئی پی ملاقات
کا حصہ نہیں بنے، بلکہ ایک ماں کی شفقت اور حکومتی احساس کا زندہ ثبوت
بنے۔واسع عدنان، جو پیدائشی طور پر ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہے، جب
وزیراعلیٰ سے ملا تو وہ صرف ایک کارڈ نہیں لے رہا تھا بلکہ وہ اپنی تکلیف
میں حکومت کی شراکت اور احساس لے رہا تھا۔ وزیراعلیٰ نے نہ صرف انسولین اور
میڈیکل کِٹس دیں، بلکہ پانچ سالہ واسع سے وعدہ کیا کہ اْسے کار بھی
بھجوائیں گی۔ یہ کوئی روایتی وعدہ نہیں، بلکہ ایک ماں کی طرف سے بچے کی
خوشی میں شامل ہونے کا اظہار ہے۔اسی طرح زینب وحید سے بات چیت اور زین
شہزاد کی آنکھوں کے معائنے کی ہدایت ایک جامع فلاحی سوچ کو ظاہر کرتی ہے،
جو صرف ایک بیماری تک محدود نہیں بلکہ پورے جسم و ذہن کی صحت کو مدنظر
رکھتی ہے۔اس پروگرام کا سب سے انقلابی پہلو یہ ہے کہ انسولین، گلوکومیٹر،
ٹیسٹ سٹرپس اور دیگر ضروری اشیاء فری فراہم کی جا رہی ہیں، اور وہ بھی بچوں
کے گھروں کی دہلیز پر۔ پاکستان پوسٹ کے رائیڈرز ایک خصوصی ایپ کے ذریعے
انسولین کارڈ سکین کرکے تصدیق کرتے ہیں، جو نہایت شفاف، مربوط اور ڈیجیٹل
طرز پر مبنی نظام ہے۔ یہ جدید طریقہ کار ایک ایسے صوبے میں متعارف کروایا
گیا ہے جہاں اکثر اوقات صحت کے بنیادی وسائل تک بھی رسائی ایک چیلنج ہوتی
ہے۔اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں 1500 بچوں کو شامل کیا گیا ہے، جو کہ ایک
آغاز ہے، لیکن ایک ایسا آغاز جو منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے وژن
"صحت مند پنجاب" کے تحت یہ کوشش اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ آئندہ یہ سہولت
صوبے بھر کے ہر ذیابیطس میں مبتلا بچے تک پہنچے گی۔پاکستان جیسے ملک میں
جہاں ہر سال ہزاروں بچے ذیابیطس کا شکار ہو رہے ہیں، وہاں بروقت انسولین کی
فراہمی زندگی اور موت کا فرق بن سکتی ہے۔ انسولین ایک ایسی دوا ہے جو ٹائپ
ون ذیابیطس کے مریضوں کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے کہ اب تک یہ سہولت اکثر گھروں کی مالی استطاعت سے باہر رہی ہے۔
اب حکومت خود ان بچوں تک پہنچ رہی ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ یہ بوجھ نہیں
اٹھا سکتے تھے۔یہ اقدام صرف ایک فلاحی منصوبہ نہیں بلکہ حکمرانی کے اْس
تصور کی جھلک ہے جو عوام کے لیے ماں جیسا کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ
مریم نواز نے اس بات کو بخوبی سمجھا کہ بچوں کی صحت پر کی گئی سرمایہ کاری،
درحقیقت قوم کے مستقبل پر سرمایہ کاری ہے۔ ان معصوم چہروں پر جو مسکراہٹ
نظر آئی، وہ کسی سیاسی نعرے یا اشتہار کی نہیں بلکہ عملی ہمدردی اور سچے
احساس کی گواہی دے رہی تھی۔پروگرام میں یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ
ذیابیطس میں مبتلا بچوں کا ہر سہ ماہی میں ڈسٹرکٹ یا تحصیل ہیڈکوارٹر میں
فالو اپ چیک اپ ہو۔ اس سے نہ صرف علاج کا تسلسل برقرار رہے گا بلکہ بچوں کی
صحت پر ایک منظم نگاہ بھی رکھی جا سکے گی۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ
اگر پنجاب میں یہ ممکن ہے تو باقی صوبے کب اس جانب توجہ دیں گے؟ کیا سندھ،
خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقوں کے بچے اس سہولت کے حقدار نہیں؟
وفاقی سطح پر بھی ایسے پروگرامز کی تقلید ہونی چاہیے۔ صحت جیسے بنیادی حق
کو ہر بچے تک پہنچانے کی ذمہ داری صرف صوبائی حکومتوں پر نہیں بلکہ وفاقی
حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ جہاں ایک طرف ملک کو
مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، وہاں وزیراعلیٰ نے
اپنی ترجیحات میں صحت کو سب سے مقدم رکھا۔ مریم نواز کی یہ سوچ کہ "جتنی
فکر والدین کو اپنے بچوں کی ہے، اس سے زیادہ فکر مجھے ہے"، ایک انوکھی
سیاست کا آغاز ہے۔ یہ ایک ایسی سیاست ہے جس کی بنیاد ووٹ سے نہیں بلکہ دعا
سے جڑتی ہے۔آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ "سی ایم انسولین کارڈ
پروگرام" صرف ایک طبی سہولت نہیں بلکہ انسانی ہمدردی، جدید نظم و نسق، اور
قائدانہ وڑن کا شاہکار ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف ذیابیطس میں مبتلا بچوں کے
لیے امید کی کرن ہے بلکہ پورے سماج کے لیے ایک نئی راہ متعین کرتا ہے ،وہ
راہ جو ہمدردی، خدمت اور انسان دوستی پر مبنی ہے۔
|