ایک تحقیق کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ بڑھاپا ٹانگوں سے
اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے جا تے ہیں، ہمیں
اپنی ٹانگوں کو متحرک اور مضبوط رکھنا چاہیے ۔ صحت مند زندگی کی علامات میں
ٹانگوں کے مضبوط پٹھے سب سے اہم اور ضروری اعضا سمجھے جاتے ہیں ۔ اگر آپ دو
ہفتے تک اپنی ٹانگیں کو حرکت نہ دیں تو آپ کی ٹانگوں کی طاقت 10 سال کی مدت
تک کم ہو جائے گی۔ ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی اس تحقیق سے پتا
چلا ہے کہ بوڑھے ہوں یا جوان دو ہفتوں کی غیرفعالیت کے دوران، دونوں کی
ٹانگوں کے پٹھوں کی طاقت ایک تہائی حد تک کمزور ہو سکتی ہے، جو کہ 20-30
سال کی عمر گزارنے کے برابر ہے۔ جیسے جیسے ہماری ٹانگوں کے پٹھے کمزور ہوتے
جائیں گے، انہیں دوبارہ طاقتوربنانے میں اتنا ہی وقت لگے گا ۔ اس مقصد کے
لیے صبح شام چہل قدمی جیسی ورزش بہت ضروری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جسم کا
سارا وزن ٹانگوں پر ہوتا ہے۔ پاؤں ایک قسم کے ستون ہیں جو انسانی جسم کا
سارا وزن اٹھاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی 50% ہڈیاں اور 50% پٹھے
دونوں ٹانگوں میں ہی ہوتے ہیں۔ انسانی جسم کے سب سے بڑے اور مضبوط جوڑ اور
ہڈیاں بھی ٹانگوں ہی میں ہوتی ہیں۔ مضبوط ہڈیاں، مضبوط پٹھے اور لچکدار جوڑ
"آئرن ٹرائی اینگل" بناتے ہیں جو انسانی جسم کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے
ہیں۔ جب ایک انسان جوان ہوتا ہے تو اس کی رانوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ
وہ 800 کلو وزنی گاڑی اٹھا سکے! ٹانگیں جسم کی حرکت کا مرکز ہے۔ دونوں
ٹانگوں میں انسانی جسم کے 50% اعصاب، 50% خون کی شریانیں اور ان شریانوں
میں جسم کا 50% خون بہتا ہے۔ یہ انسانی جسم کا سب سے بڑا گردشی نیٹ ورک ہے،
جو جسم کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ جب ٹانگیں صحت مند ہوتی ہیں ۔تو خون کا
بہاؤ بھی آسانی سے ہوتا ہے، اس لیے جن لوگوں کی ٹانگوں کے پٹھے مضبوط ہوتے
ہیں ان کا دل بھی مضبوط ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات بخوبی کہی جا سکتی ہے کہ
بڑھاپا پاؤں سے اوپر کی طرف سفر کرتا ہے۔ جیسے جیسے کسی انسان کی عمر بڑھتی
جاتی ہے، دماغ اور ٹانگوں کے درمیان ہدایات کی ترسیل کی درستگی اور رفتار
کم ہوتی جاتی ہے۔ خاص طور پر مہلک بیماریاں جیسے دماغی تھرومبوسس۔ ٹانگوں
کی ورزش کا بطورخاص 60 سال کی عمر کے بعد کرنا بہت ضروری ہے۔ جس طرح ایک
عام انسان گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہو جاتا ہے اسی طرح ہمارے پاؤں
اورٹانگیں بھی وقت کے ساتھ بوڑھی ہوتی جاتی ہیں ،ماہرین کے مطابق ہر انسان
کے لیے پیروں/ٹانگوں کی ورزش بہت ضروری ہے۔ صرف ٹانگوں کو مضبوط رکھنے ہی
سے کوئی شخص مزید بڑھاپے کو کسی حد تک روک سکتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق تیس
سے چالیس منٹ تک صبح شام چہل قدمی کرنا انسانی صحت اور مضبوط ٹانگوں کی
ضمانت بن جاتا ہے ۔ کسی بادشاہ نے اپنے سب سے تجربہ کار حکیم کو دربار میں
بلایا اور سوال کیا کہ تم مجھے کوئی ایسی نصیحت کرو جس سے میں صحت مند رہو
ں اور بیماریوں کی یلغار سے محفوظ رہوں ۔ حکیم نے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا
صحت مند زندگی کے لیے چہل قدمی بہت ضروری ہے ، دوسری نصیحت ۔ شام کے کھانے
کے بعد اگر کانٹوں پر بھی چلنا پڑے تو ضرور چلا جائے ۔ تیسری نصیحت یہ کی
کہ پھل اور سبزیاں صرف موسمی کھائیں ،بے موسمی پھل اور سبزیوں سے ہر ممکن
پرہیز کریں ۔ چوتھی نصیحت یہ کی کہ اگر جوان اور صحت مند جانورکا ہی گوشت
کھایا جائے تو انسانی صحت کو بڑی حد تک بیماریوں سے بچا یا جاسکتا ہے ۔
یہاں تک تو تحقیق اور تجربہ کار حکیم کی بات ختم ہوئی۔اب ہم پاکستان کے
لوگوں کی صحت اور مسائل کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے عمررسیدہ لوگوں
کے لیے صرف ٹانگوں سے بڑھاپے وارد نہیں ہوتا بلکہ چاروں اطراف سے حملہ آور
ہوتا ہے کیونکہ ہر دوسرا تیسرا شخص بدترین معاشی مسائل کا شکار نظر آتا ہے
۔اس ملک میں اﷲ کا دیا ہوا سب کچھ ہے لیکن حکومتی سطح پر مالی وسائل کی
ایسی بندر بانٹ جاری ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد صرف دس سے پندرہ فیصد سرکاری
افسروں اورملازمین کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے معقول پنشن دی جاتی ہے ،
کچھ عمررسیدہ لوگوں کو اولڈ ایج بینیفٹ کی جانب سے جو معمولی پنشن دی جاتی
ہے اس سے تو لاحق بیماریوں سے نجات کی ادویات بھی خریدی نہیں جا سکتیں ۔ اس
لیے وہ بھی گوناگوں صحت کے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔اس ملک میں 70فیصد
عمررسیدہ لوگ ایسے ہیں جن کو ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی ۔ایک تو ملازمت
ختم ہونے کا غم ، دوسرا اس پر ہر جانب سے بیماریوں کی یلغار ایسی شروع ہوتی
ہے کہ اپنے بھی پرائے بن جاتے ہیں ۔ وہ بیوی جو پہلے دفتر سے گھر آنے پر
اپنی آنکھیں بچھاتی تھی ،جب خالی جیب شوہر گھر لوٹتا ہے تو وہ محبت سے بات
کرنے کی بھی روا دار نہیں ہوتی ۔ وہ اولاد جو باپ کی انگلی پکڑ کر زمین پر
پاؤں رکھ کر چلنا سیکھتی ہے ، جن کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے باپ
دن رات ایک کردیتا ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد خالی جیب کی وجہ سے سب کنی کترا کر
ایسے گزر جاتی ہیں جیسے انہوں نے باپ کو دیکھا ہی نہیں ۔ بعض اوقات تو کئی
کئی دن ملاقات بھی نہیں ہوتی۔ بیماریوں اور مالی پریشانیوں میں ڈوبا ہوا
باپ جب بیٹوں کو دوائی لانے کے لیے پرچی دیتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ
بیٹا شام کو میڈیسن لے کر آئے گا لیکن جب شام ڈھلے بیٹا گھر واپس آتا ہے تو
پرچی گم ہوجانے کا بہانہ بناکر رفو چکر ہو جاتا ہے ۔ اگر مجبوری کے عالم
میں باپ کو کسی ڈاکٹر یا ہسپتال میں جانے کی ضرورت پڑجائے تو بیٹے کھلے
لفظوں میں یہ کہہ کر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں کہ ہمیں دفتر سے چھٹی
نہیں ملتی لیکن انہی بیٹوں کو اپنی بیگمات اور بچوں کو سسرال لے جانے اور
تفریح کے لیے کسی پارک میں لے جانے کی چھٹی آسانی سے مل جاتی ہے ۔سیر اور
ورزش تو دور کی بات ہے ہمارے پاکستان میں والدین کو پیٹ بھر کر کھانا بھی
نہیں ملتا ۔جب سے بجلی کے بل عذاب کی شکل دھار کر ہر گھر میں نازل ہوئے
ہیں، ہر گھر میں لڑائی اور تو تو میں میں کا نہ ختم ہونے کا والا ایسا
سلسلہ شروع ہو ا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ ایک دوست نے اپنی زمین جائیداد فروخت
کرکے ایک گھر تعمیر کیا تاکہ وہ اپنی اولادکے ساتھ زندگی کے بقیہ ماہ و سال
آسانی سے گزار سکے ۔ملازمت تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی ،اچانک ان کی آنکھوں
کی بینائی بھی جاتی رہی ۔ وہی اولاد جس کے لیے نیا گھر تعمیر کیا گیا تھا
،وہی اولاد باپ کا سہارا بننے کی بجائے دشمن بن گئی ۔اور بوڑھے والدین کو
گھر سے نکال دیا اب وہ نہ جانے کہاں بھٹک رہے ہونگے ۔ اگریہ کہا جائے تو
غلط نہ ہوگا کہ بیوی اور اولاد اس وقت تک فرمانبردار رہتی ہے جب تک جیب میں
پیسے ہوں ۔ خالی جیب تو سگے بیٹے اور بھائی بھی اس طرح آنکھیں پھیرلیتے ہیں
کہ جیسے وہ کبھی جانتے بھی نہ تھے ۔انسان اس وقت تک باپ کہلاتا ہے جب تک اس
کی جیب گرم رہتی ہے ، جیب خالی ہوتے ہی سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔ایک
ٹیچر ریٹائر ہوکر گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر گھر پہنچا اور بیگم سے
مخاطب ہو کہا آج سکول میں تمام اساتذہ نے اپنی تقریروں میں کہا کہ میری
ریٹائرمنٹ کے بعد سکول میں ایک ایسا خلا پید ا ہوگیا ہے جو کبھی پورانہیں
ہوسکتا ۔ بیگم جو پہلے جلی کٹی بیٹھی تھی اس نے ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے
کہا میاں اگر تم اتنے ہی قابل ہوتے تو گورنمنٹ تمہیں ریٹائر ہی کیوں کرتی ۔
جو تمہاری تعریفیں کرتے تھے وہ سب جھوٹ بولتے تھے ۔ پکڑو یہ تھیلا اور
بازار سے سبزی لیکر آؤتاکہ تمہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو سکے ۔دنیا میں
عمررسیدہ لوگوں کے لیے بیشمار سہولتیں موجود ہیں لیکن پاکستان میں بڑھاپا
سب سے بڑی بیماری اور لعنت بن چکا ہے ۔ اس میں معاشی مسائل کا بھی حصہ ہے
اور حالات کی بدلتی قدریں بھی شامل ہیں۔حکومت ریٹائر کرنے سے پہلے دیکھتی
کہ یہ خالی گھر جا رہا ہے باقی زندگی گزارے گا۔گھر کی طرخ کر کے اسے ایسے
دھکا دے دیا جاتا ہے وہ کبھی ان کے دفتر کے لیے لازم ہی نہیں تھا ۔
|