تمباکو نوشی ایک ایسا مہلک رجحان ہے جس نے دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کو
جسمانی، ذہنی، اور معاشرتی تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی
صحت تک محدود مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی بحران ہے جس کے اثرات نسلوں تک
پھیلتے ہیں۔ ایک سگریٹ کا کش صرف ایک لمحے کی تسکین دیتا ہے، لیکن اس کے
بدلے میں زندگی کی کئی ساعتیں چھین لیتا ہے۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جو تمباکو
نوشی کرتا ہے، نہ صرف اپنے جسم کو زہر دے رہا ہوتا ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے
افراد، ماحول، اور معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔
تمباکو نوشی میں استعمال ہونے والی مصنوعات، خاص طور پر سگریٹ، میں سینکڑوں
کیمیکل پائے جاتے ہیں جن میں سے 70 سے زائد ایسے ہیں جنہیں سائنسی تحقیق نے
کینسر کا باعث قرار دیا ہے۔ نیکوٹین، تمباکو کا سب سے اہم اور نشہ آور جزو،
دماغ میں ڈوپامین کی سطح کو متاثر کرتا ہے، جو وقتی خوشی یا سکون کا احساس
دیتا ہے لیکن ساتھ ہی جسم کو اس کی عادت بھی لگا دیتا ہے۔ ایک بار جب
نیکوٹین جسم کا حصہ بن جاتی ہے، تو اسے چھوڑنا صرف ارادے کا کام نہیں رہتا،
بلکہ یہ ایک طبی اور نفسیاتی جنگ بن جاتی ہے۔ نیکوٹین کی غیر موجودگی میں
فرد کو چڑچڑاپن، بے چینی، نیند کی کمی اور ذہنی دباؤ جیسے تکلیف دہ علامات
کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اسے دوبارہ سگریٹ کی طرف مائل کر دیتے ہیں۔
ٹار، تمباکو کا ایک اور خطرناک عنصر، پھیپھڑوں میں جمع ہو کر ان کے خلیات
کو تباہ کرتا ہے۔ یہ وہی زہریلا مادہ ہے جو سڑکوں پر بچھائی جانے والی
تارکول میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ مادہ سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں
پہنچتا ہے تو ان کی ساخت بگڑ جاتی ہے، اور رفتہ رفتہ یہ عضو اپنے افعال
انجام دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ، جو تمباکو کے دھوئیں
کا اہم حصہ ہے، خون میں آکسیجن کی جگہ لے لیتا ہے اور جسم کے خلیات کو زندہ
رکھنے کے لیے درکار آکسیجن کی مقدار کم کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ دل کی
بیماریوں، دماغی نقصان، اور یہاں تک کہ اچانک موت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے باعث ہر سال تقریباً 80 لاکھ افراد ہلاک ہوتے
ہیں، جن میں سے 12 لاکھ وہ ہیں جو خود تمباکو استعمال نہیں کرتے بلکہ
دوسروں کے دھوئیں کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس المیے کی شدت کو
اجاگر کرتے ہیں کہ یہ محض ایک انفرادی عادت نہیں بلکہ ایک اجتماعی بحران
ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر، جسے تمباکو نوشی سے براہ راست منسلک کیا گیا ہے،
کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ علاوہ ازیں، COPD یعنی دائمی رکاوٹ دار
پھیپھڑوں کی بیماری، جو سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی ہے، تمباکو نوشی کا
ایک اور سنگین نتیجہ ہے۔ دل کا دورہ، ہائی بلڈ پریشر، اور دماغی فالج بھی
تمباکو کے زہریلے اثرات سے جڑے ہوئے ہیں۔ خواتین میں حمل کے دوران تمباکو
نوشی سے اسقاط حمل، قبل از وقت پیدائش، اور نوزائیدہ بچوں میں کمزور مدافعت
جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
تمباکو نوشی صرف جسمانی بیماریوں تک محدود نہیں بلکہ ذہنی اور سماجی مسائل
کو بھی جنم دیتی ہے۔ کئی افراد ذہنی دباؤ، بے سکونی یا تنہائی سے بچنے کے
لیے سگریٹ نوشی کا سہارا لیتے ہیں۔ میڈیا اور فلموں میں تمباکو نوش کرداروں
کو اسٹائل اور خود اعتمادی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے
نوجوان طبقہ شدید متاثر ہوتا ہے۔ دوستوں کے دباؤ، خود اعتمادی کی کمی یا
بالغ ہونے کے احساس میں، نوجوان اکثر تمباکو نوشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
نشے کی یہ لت وقتی خوشی تو دیتی ہے لیکن طویل مدت میں ذہنی دباؤ، عدم توجہ،
اور نیند کے مسائل پیدا کرتی ہے۔
تمباکو نوشی کی قیمت صرف صحت نہیں بلکہ معیشت بھی چکاتی ہے۔ عالمی سطح پر
اس عادت کے باعث ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نقصان علاج معالجے
کی لاگت، پیداواری صلاحیت میں کمی، اور انسانی وسائل کی بربادی کی صورت میں
ظاہر ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک، جہاں صحت کی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں،
تمباکو نوشی کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کے
باعث قومی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جو کہ تعلیم، صحت،
اور بنیادی سہولیات کے لیے استعمال ہو سکتے تھے۔
تمباکو نوشی کے ماحولیاتی اثرات بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ تمباکو کی کاشت
کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ماحول کا توازن
بگڑتا ہے بلکہ زمین کی زرخیزی بھی کم ہوتی ہے۔ سگریٹ کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے، جو
دنیا بھر میں سب سے زیادہ پھیلنے والا کچرا ہیں، پانی، مٹی، اور ہوا کو
آلودہ کرتے ہیں۔ ان میں موجود زہریلے مادے آبی حیات اور دیگر جانوروں کے
لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے دوران خارج ہونے والا دھواں نہ
صرف انسانوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے تمباکو نوشی کے خلاف سخت اقدامات اٹھا کر اس کے
استعمال میں نمایاں کمی کی ہے۔ سویڈن اس حوالے سے ایک روشن مثال ہے جہاں
نوجوانوں میں تمباکو نوشی کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ وہاں تمباکو
مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے، اشتہارات پر مکمل پابندی لگائی گئی،
اور نکوٹین کے صحت مند متبادل فراہم کیے گئے۔ جاپان نے عوامی مقامات پر
تمباکو نوشی پر سخت پابندیاں نافذ کیں اور ترک کرنے کے لیے صحت کے مراکز
میں خصوصی پروگرامز شروع کیے۔ ان اقدامات نے تمباکو کے استعمال کو کم کرنے
میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں بھی تمباکو کنٹرول ایکٹ 2019 کے تحت کئی مثبت اقدامات کیے گئے۔
ان میں اشتہارات پر پابندی، پبلک مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت، اور
سگریٹ پیکٹس پر تصویری انتباہات شامل ہیں۔ تاہم، قانون کے نفاذ میں
کمزوریاں، غیر قانونی فروخت، اور نوجوانوں تک آسان رسائی جیسے مسائل ابھی
بھی موجود ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مختلف این جی اوز اور صحت
کی تنظیمیں اسکولوں اور کالجوں میں آگاہی مہمات چلا رہی ہیں، والدین کو
متحرک کر رہی ہیں، اور سپورٹ گروپس بنا کر ترک کرنے والوں کی مدد کر رہی
ہیں۔
تمباکو نوشی ترک کرنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ کئی سائنسی طور پر
ثابت شدہ طریقے ایسے ہیں جو اس عمل کو سہل بنا سکتے ہیں۔ نیکوٹین ریپلیسمنٹ
تھراپی (NRT) کے ذریعے نیکوٹین پیچ، چیونگم، اور لوزینجز فراہم کی جاتی ہیں
جو سگریٹ کی طلب کو کم کرتی ہیں۔ Bupropion اور Varenicline جیسی ادویات
دماغ کے ان حصوں پر اثر ڈالتی ہیں جو نیکوٹین کی طلب پیدا کرتے ہیں۔
نفسیاتی کونسلنگ، سپورٹ گروپس، اور خاندان کی معاونت ترک کرنے کے عمل کو
مؤثر اور مستقل بنا سکتی ہے۔
ڈیجیٹل دور میں ایپس جیسے QuitNow، SmokeFree، اور MyQuitBuddy ترک کرنے
والوں کو روزانہ رہنمائی، یاد دہانیاں، اور کمیونٹی سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔
یہ پلیٹ فارمز ایک طرح کا ڈیجیٹل دوست بن کر ہر قدم پر حوصلہ دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود حوصلہ افزا کہانیاں اور ماہرین کی ویڈیوز بھی ترک کرنے
کی تحریک فراہم کرتی ہیں۔
صحت بخش غذا ترکِ تمباکو کے دوران بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پانی زیادہ پینا جسم
سے زہریلے مادے نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن سی اور ای سے بھرپور پھل
جیسے نارنجی، آملہ، اور سبز پتوں والی سبزیاں جسم کو طاقتور بناتی ہیں۔ دہی
اور پروبائیوٹک غذائیں نظامِ ہضم کو بہتر بناتی ہیں، جب کہ فائبر والی
غذائیں خون میں شکر کی سطح کو متوازن رکھتی ہیں اور وزن میں کمی میں مدد
دیتی ہیں۔ ساتھ ہی روزانہ ورزش، خاص طور پر تیز چہل قدمی، یوگا یا
سائیکلنگ، دماغ میں اینڈورفنز کی پیداوار بڑھاتی ہے جو موڈ کو بہتر بناتے
ہیں اور سگریٹ کی طلب کو کم کرتے ہیں۔
ای سگریٹ کو بعض افراد تمباکو سے کم نقصان دہ سمجھتے ہیں، لیکن عالمی ادارہ
صحت نے واضح کیا ہے کہ اس کے طویل مدتی اثرات ابھی پوری طرح معلوم نہیں۔
نوجوان نسل میں ای سگریٹ کا بڑھتا ہوا رجحان ایک نیا خطرہ بن رہا ہے، جس پر
تحقیق اور قانون سازی دونوں کی ضرورت ہے۔
بالآخر، یہ مسئلہ صرف کسی فرد کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا
مسئلہ ہے۔ تمباکو نوشی کے خلاف جنگ صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی،
تعلیمی، مذہبی، اور گھریلو سطح پر بھی لڑی جانی چاہیے۔ ہر استاد، والدین،
امام، اور رائے دہندہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ عادت صرف صحت کی دشمن نہیں،
بلکہ انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک خاموش قاتل ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں صحت مند، خوشحال اور باوقار زندگی گزاریں،
تو ہمیں آج ہی سے تمباکو نوشی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ یہ وقت ہے
کہ ہم خاموشی توڑیں، شعور بیدار کریں، اور عملی اقدامات کریں۔ صحت مند
زندگی، صاف ماحول، اور محفوظ نسلوں کی خاطر، آئیے ہم سب تمباکو نوشی کو
ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کا عہد کریں۔
|