دنیا بھر میں بے اولادی ایک ابھرتا ہوا بحران بن چکی ہے۔
شادی شدہ جوڑے برسوں بعد بھی اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ ایک طرف جدید
سائنسی ترقی نے نئی راہیں کھولی ہیں، تو دوسری طرف مہنگے اور پیچیدہ
پروسیجرز جیسے آئی وی ایف (IVF)، آئی یو آئی (IUI) اور اکسسی (ICSI) اپنی
محدود کامیابی کے باوجود ذہنی، جسمانی اور مالی دباؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان
میں کامیابی کی شرح کم، اخراجات بے تحاشہ اور نتائج غیر یقینی ہوتے ہیں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا بے اولادی کا کوئی ایسا طریقۂ علاج موجود
ہے جو قدرتی، محفوظ، مؤثر اور انسانی جسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو؟ جواب ہے:
ہربل میڈیسن۔
یہ وہ میدانِ شفا ہے جو صدیوں سے انسان کی صحت کی بقا اور علاج میں مرکزی
کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ آج کی جدید تحقیق بھی اس کی افادیت پر مہر ثبت کر
چکی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کی تقریباً 80 فیصد آبادی اپنی بنیادی طبی
ضروریات کے لیے قدرتی ادویات پر انحصار کرتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ
آف ہیلتھ سمیت دیگر تحقیقی اداروں کی رپورٹس یہ ثابت کرتی ہیں کہ مخصوص جڑی
بوٹیوں کے مرکبات تولیدی نظام پر مثبت اثر ڈالتے ہیں، ہارمون توازن کو بحال
کرتے ہیں، اسپرم کی کوالٹی، مقدار اور حرکت پذیری کو بہتر بناتے ہیں، اور
خواتین میں بیضہ بننے و حمل ٹھہرنے کے امکانات کو بڑھاتے ہیں۔
میکا، اشوگندھا، شتاوری، ٹریبیولس جیسی جڑی بوٹیوں پر ہونے والی سائنسی
تحقیق واضح کرتی ہے کہ یہ اجزاء ہارمونی نظام میں بہتری، جنسی کارکردگی میں
اضافہ، اور بانجھ پن کے علاج میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان کے
فوائد صرف اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب تشخیص درست ہو اور نسخہ کسی تجربہ کار
طبیب کی زیرِ نگرانی ہو۔
میرے مطب پر ایک مریض آیا، جو پچھلے دو سال سے بے اولادی کا شکار تھا۔
ملتان کے ایک معروف ڈاکٹر نے ویریکوسل کی تشخیص کے بعد سرجری تجویز کی اور
مکمل گارنٹی دی کہ "بس یہ کرالو، اولاد یقینی ہے۔" سرجری کے بعد کئی مہینے
مختلف ادویات چلتی رہیں، ہر بار چند ماہ کا انتظار بتایا گیا لیکن نتیجہ
صفر رہا۔
مایوسی کے عالم میں وہ میرے پاس آیا۔ میں نے جدید تشخیصی نظام کی مدد سے
مکمل تجزیہ کیا اور مزاجی اصولوں پر مبنی خالص قدرتی علاج شروع کیا۔ چھ ماہ
بعد اس کی اہلیہ امید سے تھیں۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں؛ ایسے درجنوں جوڑے
ہیں جنہوں نے مہنگے پروسیجرز اور لاکھوں کے اخراجات کے بعد ناکامی دیکھی،
لیکن قدرتی طریقۂ علاج کے ذریعے خوشخبری حاصل کی۔
آئی یو آئی اور آئی وی ایف جیسے طریقوں میں کامیابی کی شرح اکثر 30 سے 40
فیصد کے درمیان ہوتی ہے، اور ہر سائیکل مہنگا، جسمانی و جذباتی لحاظ سے
تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ جس کی کوئی حتمی گارنٹی نہیں ہوتی۔ یہ کاروبار بن
چکا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ڈاکٹرز کے مریضوں میں استعمال کی جانے والی بہت سی
دوائیں جڑی بوٹیوں سے بنی ہوتی ہیں لیکن انہیں انگریزی نام، دلکش پیکنگ اور
مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔
اگر یہی جڑی بوٹیاں کسی ماہر طبیب کے ہاتھ میں ہوں، جو تشخیص، مزاج، خوراک،
اور ادویاتی تناسب کو سائنسی و طبی اصولوں کے مطابق ترتیب دے، تو ان کے
نتائج کہیں زیادہ مؤثر، محفوظ اور دیرپا ہوتے ہیں اور یہ بات تجربات سے
ثابت ہو چکی ہے۔
ہربل علاج کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف علامات کا علاج نہیں کرتا، بلکہ مرض
کی جڑ تک پہنچ کر مسئلے کو جڑ سے ختم کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی مرد میں اسپرم
کم ہیں، تو سوال یہ ہوگا: کیا ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہے؟ کوئی ورم ہے؟ خون کی
روانی میں رکاوٹ ہے؟ غذائی قلت ہے یا ذہنی دباؤ؟
ہربل علاج میں ان تمام اسباب کو مدنظر رکھ کر انفرادی مزاج کے مطابق نسخہ
ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایلوپیتھک نظام اکثر صرف علامات کو دبانے
پر توجہ دیتا ہے۔ جس سے وقتی افاقہ تو ہو جاتا ہے، مگر مرض دوبارہ پلٹ آتا
ہے۔
قدرتی علاج جسمانی نظام کو فطری طور پر متوازن کرتا ہے، قوتِ مدافعت کو
بڑھاتا ہے، اور تولیدی صحت کو مستقل بنیادوں پر بہتر بناتا ہے۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہربل علاج کا سب سے مضبوط ستون ماہر معالج ہے۔
ایسا معالج جو نہ صرف طبِ قدیم میں مہارت رکھتا ہو بلکہ جدید سائنسی تشخیص
جیسے لیبارٹری ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، ہارمون پروفائلنگ وغیرہ سے بھی بخوبی واقف
ہو۔ کیونکہ صرف دوا دینا علاج نہیں، بلکہ صحیح وقت پر صحیح دوا دینا ہی شفا
کا ضامن ہوتا ہے۔
بے اولادی ایک نفسیاتی، سماجی اور ازدواجی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ ایسے میں
یہ کہنا کہ "سرجری کروالو، اولاد یقینی ہے" بعض اوقات جذباتی استحصال کی
صورت اختیار کر لیتا ہے۔
علاج میں اخلاص، مزاجی فہم، فطری اصولوں کی پاسداری اور سائنسی بنیادوں پر
تحقیق ہی کامیابی کی ضمانت بنتی ہے۔
اگر جدید میڈیکل سائنس بے اولادی کا مکمل حل دے چکی ہوتی، تو گائناکالوجسٹ
اور یورولوجسٹ بے اولاد نہ ہوتا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ
ایلوپیتھک نظام کے پاس ان مسائل کی جڑ پر اثر انداز ہونے والی کوئی مؤثر
دوا موجود نہیں، اسی لیے وہ پروسیجرز پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف، خود ڈاکٹرز بھی اب قدرتی ادویات اور جڑی بوٹیوں پر مبنی علاج کی
طرف رجوع کر رہے ہیں۔ بعض اوقات انہی جڑی بوٹیوں کو انگریزی فارمولے میں
ڈھال کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہربل
ادویات مؤثر ہیں۔ بشرطیکہ کسی مستند اور تجربہ کار طبیب کے ہاتھوں تجویز
ہوں۔ ان کی افادیت، مزاجی اثرات، اور مقدار کا مکمل ادراک صرف ایک ماہر
طبیب کو ہوتا ہے، ڈاکٹر کو نہیں۔
لاہور کے ایک معروف ڈاکٹر، جس کا تعلق جدید ایلوپیتھک نظامِ طب سے تھا، بے
اولادی کے مسئلے سے دوچار تھا۔ کئی سال کی شادی کے باوجود وہ اولاد کی نعمت
سے محروم رہے۔ چونکہ خود ڈاکٹر تھے، اس لیے تمام ممکنہ میڈیکل ٹیسٹ،
پروسیجرز، ہارمونی علاج، اور حتیٰ کہ مہنگے ترین IVF اور ICSI جیسے مراحل
بھی آزمائے گئے۔ لیکن ہر بار ناکامی نے مایوسی کو بڑھایا۔
کئی بار وہ اپنی بیوی کو لاہور، ملتان اور اسلام آباد کے مشہور
گائناکالوجسٹس کے پاس لے کر گئے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں کے انبار لگے، دواؤں کے
درجنوں کورسز ہوئے، مگر نتیجہ وہی صفر رہا۔ ہر ماہر یہی کہتا رہا کہ کوئی
بڑی رکاوٹ نہیں، "سب کچھ نارمل ہے" بس دوا لیتے رہیں، امید رکھیں۔ وقت
گزرتا رہا، اور عمر بڑھتی گئی۔
مایوسی کے اس دور میں اُن کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جو میرا سابق
مریض رہ چکا تھا اور جسے قدرتی طریقۂ علاج کے ذریعے اولاد کی خوشخبری ملی
تھی۔ اُس نے انہیں مشورہ دیا کہ ایک بار طبِ قدیم، یعنی ہربل میڈیسن کی طرف
رجوع کریں۔ شاید اسی میں وہ شفا ہو جو جدید سائنس نہ دے سکی۔ پہلے پہل تو
وہ ڈاکٹر اس بات پر ہنسے اور قدرے طنز سے کہا: "اگر جڑی بوٹیاں ہی سب کچھ
ہوتیں، تو میڈیکل سائنس بند ہو جاتی!" لیکن حالات نے مجبور کیا۔ بیوی کا
دباؤ، ذہنی تھکن اور ناامیدی نے بالآخر اُن کے قدم میرے مطب تک پہنچا دیے۔
میں نے مکمل تجزیہ کیا: شوہر اور بیوی دونوں کی رپورٹس، مزاج، جسمانی
کیفیت، نیند، خوراک، حتیٰ کہ ان کے باہمی تعلقات کے پہلوؤں کا بھی بغور
مطالعہ کیا۔ اس کے بعد مزاجی اصولوں اور سائنسی رپورٹس کے امتزاج سے خالص
ہربل نسخہ ترتیب دیا۔ ساتھ میں غذائی ہدایات، جسمانی ترتیب، اور ذہنی سکون
کے لیے چند عملی رہنما اصول بھی دیے۔ دوا دونوں میاں بیوی کو دی گئی، اور
سادہ مگر جامع نسخہ جاری رہا۔
پہلے تین ماہ بعد علامات میں بہتری محسوس ہوئی۔ چھٹے مہینے میں حمل ٹیسٹ
مثبت آیا۔ وہ لمحہ ناقابلِ بیان تھا۔ ایک ایسا انسان، جو خود ڈاکٹر تھا،
سارا سسٹم جانتا تھا، اُس کے لیے یہ شفا ایک فطری جھٹکا بھی تھی اور داخلی
انقلاب بھی۔
بعد ازاں، جب وہ بچے کے ساتھ دوبارہ مطب پر آیا، تو اُس کی آنکھوں میں ایک
عجیب سا احترام تھا۔ سائنسی غرور کی جگہ فطرت پر ایمان لے چکا تھا۔ بعدازاں
اُس ڈاکٹر نے تسلیم کیا: "ہم نے سب کچھ آزمایا، مگر کامیابی تب ملی جب
قدرتی راستے کو اختیار کیا۔ اب میں سمجھ چکا ہوں کہ ہر مسئلے کا حل
لیبارٹری میں نہیں، بعض اوقات فطرت کے قریب جانے میں ہوتا ہے۔"
ایک اور واقعہ ساہیوال سے تعلق رکھتا ہے، جہاں ایک مریض ویریکوسل کی وجہ سے
مردانہ بانجھ پن کا شکار تھا۔ ایک معروف یورولوجسٹ ڈاکٹر نے فوری سرجری کا
مشورہ دیا اور مکمل گارنٹی دی کہ اس کے بعد وہ مکمل صحت یاب ہو جائے گا۔
افسوس، ڈیڑھ سال گزر گیا، مگر کوئی واضح بہتری نہ آئی۔ ہر بار مریض کو تین
ماہ مزید انتظار کا مشورہ دیا جاتا اور ساتھ ہی مہنگی اور دیدہ زیب پیکنگ
میں کچھ ادویات دی جاتیں۔
دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام ادویات ایلوپیتھک کہہ کر دی
جاتی تھیں، لیکن درحقیقت وہ ہربل اجزاء پر مشتمل تھیں۔ انہیں انگریزی نام
اور خوبصورت غیر ملکی پیکنگ میں پیش کر کے ایک طرف مریض کو بے وقوف بنایا
گیا، اور دوسری طرف ہربل میڈیسن کی اصل افادیت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ اگر
یہی ادویات کسی ماہر حکیم کے زیرِ نگرانی استعمال کی جاتیں، تو شفا کے
امکانات کہیں زیادہ روشن تھے۔
بے اولادی ایک قابلِ علاج حقیقت ہے۔ جب قدیم حکمت، جدید تشخیص، اور فطرت کا
امتزاج ہو تو ایسا متوازن، محفوظ اور مؤثر علاج وجود میں آتا ہے جو وقتی
نہیں، مستقل شفا فراہم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف سستا اور فطری ہے بلکہ جسم کو
کسی نقصان کے بغیر اندر سے مضبوط بناتا ہے۔ اچھا ہربل علاج باعث شفاء ہے۔
لہٰذا، اگر آپ یا آپ کے قریب کوئی جوڑا اس آزمائش سے گزر رہا ہے، تو کسی
ایسے معالج سے رجوع کریں جو طبِ قدیم میں مہارت رکھتا ہو، جدید تشخیصی علوم
سے واقف ہو، اور محض دوا نہیں، شفا تجویز کرتا ہو۔
کیونکہ سچ یہی ہے: فطرت کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ جب سائنس خاموش ہو جائے،
فطرت بولتی ہے اور اگر معالج مخلص ہو، دوا خالص ہو، اور نیت پاک ہو، تو
قدرت کی طرف سے شفا میں دیر نہیں لگتی۔
یاد رکھیں، ہر مرض کا علاج ایک جیسا نہیں ہوتا؛ اس لیے خود ساختہ ٹوٹکوں کی
بجائے مستند طبیب سے مشورہ ہی دانشمندی ہے۔
اللہ ہر بے اولاد جوڑے کو اپنی رحمت سے اولادِ نرینہ اور صالح عطا فرمائے،
اور ان کے دلوں کو سکون، گھروں کو رونق، اور زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے۔
آمین۔
|