حالیہ دنوں ایک افسوسناک واقعے نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ
کر رکھ دیا۔ ایک لڑکی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور اسے اپنی جان سے
ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، لیکن ہر ایسا واقعہ معاشرے کے
اندر چھپے تضادات کو ایک بار پھر عیاں کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر، گلی
محلوں میں، تھڑوں پر، اور یونیورسٹیوں کے کیفے میں دو قسم کی سوچیں ٹکرا
رہی ہیں۔ ایک سوچ یہ ہے کہ خواتین کا یوں کھلے عام سوشل میڈیا پر آنا،
تصاویر لگانا، خود کو نمایاں کرنا دراصل ایک 'دعوت' ہے، اور اگر کوئی مرد
اس سے متاثر ہو کر جذباتی ہو جائے یا ردِعمل میں شدت پر اُتر آئے تو وہ
قصوروار نہیں، بلکہ اصل غلطی لڑکی کی ہے۔ دوسری سوچ یہ کہتی ہے کہ ایک لڑکی
کو انکار کا مکمل حق ہے، اور اگر کوئی مرد اس انکار کو برداشت نہیں کر سکتا
تو وہ ایک خطرناک ذہنیت کا حامل ہے، جسے جیل میں ہونا چاہیے، نہ کہ سوشل
میڈیا پر ہمدردی ملنی چاہیے۔
یہ دو نقطہ نظر ایک دوسرے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ جو طبقہ لڑکی کی
حمایت کرتا ہے، وہ اکثر مذہب اور روایات پر طنز و تشنیع کے نشتر چلاتا ہے۔
ان کے مطابق یہی دقیانوسی سوچ خواتین کو زندہ دفن کر رہی ہے۔ دوسری طرف، جو
طبقہ مذہب و روایت کی دہائی دیتا ہے، وہ اکثر خواتین کی آزادی کو مغربی
ایجنڈا یا بے راہ روی سے تعبیر کرتا ہے۔ درمیان کہیں بھی سمجھوتے یا افہام
و تفہیم کی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔
لیکن سچ یہ ہے کہ ہر دین، ہر تہذیب، اور ہر قانون انسان کو جان و مال کا
تحفظ دیتا ہے۔ کوئی مذہب یہ نہیں سکھاتا کہ انکار پر کسی کی جان لے لو۔ اور
آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر اس شے کا مذاق اُڑائیں جو کسی کے عقیدے سے
جڑی ہو۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اختلاف کو دشمنی بنا لیا ہے۔ ہم سننے کے
بجائے صرف بولنا چاہتے ہیں۔ ہم دلیل کے بجائے تحقیر پر یقین رکھتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، سوال یہ ہے کہ ہم کب ایک دوسرے
کو انسان سمجھیں گے۔ عورت کا سوشل میڈیا پر ہونا، تصویر لگانا، یا دوستی سے
انکار کرنا، کسی صورت میں اس کی جان لینے کا جواز نہیں ہو سکتا۔ اور یہ بھی
سچ ہے کہ مذہب کو طعنہ بنا کر کسی کے جذبات کو روندنا نہ انصاف ہے نہ
اخلاق۔
اصل دشمن مذہب نہیں، آزادی نہیں، سوشل میڈیا نہیں۔ اصل دشمن وہ ذہنیت ہے جو
اپنی ناپسندیدگی کو بھی انتقام سے بھر دیتی ہے۔ اصل مسئلہ وہ شدت پسندی ہے
جو صرف ایک سوچ کو برحق اور باقی کو باطل سمجھتی ہے۔ معاشرہ اس وقت بچ سکتا
ہے جب ہم جذباتی نعروں کے بجائے سنجیدہ مکالمے کو اہمیت دیں۔ جب ہم سمجھیں
کہ نہ ہر مذہبی انسان قاتل ہوتا ہے، نہ ہر آزاد سوچ بے حیا۔ یہ معاشرہ صرف
اس وقت سانس لے سکتا ہے جب ہم انتہا سے ہٹ کر درمیان کا راستہ اپنائیں جہاں
برداشت ہو، مکالمہ ہو، اور انسان کو انسان مانا جائے۔
|