عثمان رضی اللہ عنہ سے فرشتے بھی
حیا کرتے ہیں
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما تھے اور
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں کہ اتنے میں حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ اجازت لے کر اندر آئے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ
اجازت لے کر اندر آئے، پھر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ اجازت لے کر اندر
آئے پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اجازت لے کر اندر آئے۔ اس دوران حضور سرور
کونین صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو میں مصروف تھے اور آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی
تھیں۔ (باقی حضرات کے آنے پر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی رہے لیکن)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
ٹانگوں پر کپڑا ڈال دیا اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
فرمایا ذرا پیچھے ہٹ کر بیٹھ جائو، یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے
کچھ دیر بات کرکے چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ”یانبی
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اندر
آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو پنڈلیوں پر کپڑا ڈالا اور نہ ہی
مجھے پیچھے ہونے کا کہا (اس کی کیا وجہ ہے؟) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا ”کیا میں اس آدمی سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں؟ اس ذات
کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، فرشتے عثمان سے ایسے ہی حیا کرتے ہیں
جیسے اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں۔ اگر وہ اندر آتے اور
تم میرے پاس بیٹھی ہوتیں تو نہ وہ بات کرسکتے اور نہ واپس جانے تک سر
اٹھاسکتے۔،، (یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے) (حیاة الصحابة)
سفارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کو قریش کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم کسی سے لڑنے کیلئے
نہیں آئے بلکہ ہم تو صرف عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ کو حکم دیا کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں اور یہ کہ مکہ میں جو مومن مرد
اور عورتیں ہیں ان کو جاکر فتح کی خوشخبری سنادیں اور انہیں بتادیں کہ
عنقریب اللہ تعالیٰ مکہ میں اپنے دین کو ایسا غالب کردے گا کہ کسی کو اپنا
ایمان چھپانے کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہ خوشخبری دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
مکہ کے کمزور مسلمانوں کو (ایمان پر) مضبوط کرنا چاہتے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے
تشریف لے گئے، مکہ کے راستہ میں مقام بلدح میں ان کا قریش کی ایک جماعت پر
گزر ہوا، قریش نے پوچھا، کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا ”حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اللہ کی طرف اور اسلام کی
طرف دعوت دوں اور تمہیں بتادوں کہ ہم کسی سے لڑنے کیلئے نہیں آئے ہیں، ہم
تو صرف عمرہ کرنے کیلئے آئے ہیں۔، جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تھا انہوں نے ویسے ان کو دعوت دی۔ ان کی دعوت کے جواب میں قریش مکہ نے کہا
”ہم نے آپ کی بات سن لی ہے جائو اپنا کام کرو،، ابان بن سعید بن عاص نے
کھڑے ہوکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور ان کو اپنی پناہ میں
لیا اور اپنے گھوڑے کی زین کسی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے گھوڑے
پر آگے بٹھا کر مکہ لے گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد یافتہ صحابی
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے تو
نظروں کے سامنے بیت اللہ شریف تھا جس کے طواف کی حسرت میں سب مسلمان آئے
تھے، قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ”ہم محمد( صلی اللہ علیہ
وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے البتہ
اگر تم چاہو تو عمرہ کرسکتے ہو۔،،
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا” یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے آقا ( صلی
اللہ علیہ وسلم ) تو عمرہ نہ کریں اور میں کرلوں۔،، اور پھر مقام حدیبیہ
میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا
”یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم عثمان کس قدر خوش قسمت ہیں کہ سب سے پہلے
حرم کعبہ کا طواف کررہے ہوں گے۔،، یہ خیال سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا ”نہیں جب تک میں طواف نہ کروں، عثمان بھی نہیں کریں گے۔ ،،
(یہ ارشاد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
کامل اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہلے مہاجر
اہل و عیال کے ساتھ اللہ کے راستہ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے کا اعزاز حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ
محترمہ حضرت رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت
کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی خیر خبر آنے میں دیر ہوگئی،
بالآخر قریش کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا ”اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم
) میں نے آپ کے داماد کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھی۔،،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا ”تم نے ان دونوں کو کس حال میں
دیکھا ہے؟،، اس عورت نے جواب دیا ”میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ
انہوں نے اپنی بیوی کو ایک کمزور گدھے پر سوار کررکھا تھا اور خود اس کو
پیچھے سے ہانک رہے تھے۔،، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دیتے ہوئے
فرمایا ”اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ رہے،، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوط
علیہ السلام کے بعد پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ اللہ کے
راستہ میں ہجرت کی۔
طلب علم کا جذبہ اور شوق
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب نہ دیا،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شکایت کی (چنانچہ یہ دونوں حضرات حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ کے پاس آئے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ سے کہا ”آپ نے اپنے بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟،، حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”اللہ کی قسم! میں نے ان کے سلام کو سنا ہی
نہیں، میں تو کسی گہری سوچ میں گم تھا،، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
پوچھا ”آپ کیا سوچ رہے ہیں؟،، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں شیطان کے
خلاف سوچ رہا تھا کہ وہ ایسے برے خیالات میرے دل میں ڈال رہا تھا کہ زمین
پر جو کچھ ہے وہ سارا مجھے مل جائے تو پھر بھی میں ان برے خیالات کو زبان
پر نہیں لاسکتا۔ جب شیطان نے میرے دل میں یہ برے خیالات ڈالنے شروع کیے تو
میں نے دل میں کہا اے کاش! میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتا کہ ان
شیطانی خیالات سے کیسے نجات ملے گی؟،، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
فرمایا ”میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ شیطان جو برے
خیالات ہمارے دلوں میں ڈالتا ہے ان سے ہمیں کیسے نجات ملے گی؟ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ان سے نجات تمہیں اس طرح ملے گی کہ تم وہ
کلمہ کہہ لیا کرو جو میں نے موت کے وقت اپنے چچا (ابوطالب) کو پیش کیا تھا
لیکن انہوں نے یہ کلمہ نہیں پڑھا تھا (اور وہ کلمہ یہ ہے لاالہ الا اللہ
محمد رسول اللہ)۔) حیاة الصحابہ) |