مملکت خداداد میں گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے شادی کر کے
روپوش ہو جانے والی لڑکی کو پاتال میں سے بھی ڈھونڈ نکال کر کیفر کردار تک
پہنچا دینے کی تاریخ کوئی نصف صدی تو پرانی ہو گی ۔ مگر فلمی صنعت سے تعلق
رکھنے والی شخصیات کو کسی ذاتی رنجش حسد بغض لالچ کوئی مالی تنازعہ وقتی
اشتعال کوئی سازش کوئی دیرینہ دشمنی و پُرخاش کی بناء پر انتقامی کارروائی
کے نتیجے میں قتل کر ڈالنے کی تاریخ اِس سے بھی کہیں زیادہ پرانی ہے ۔ اور
اس ضمن میں کسی فلمی شخصیت کا سب سے پہلا قتل 1966ء میں ایک انقلابی مصنف و
ہدایتکار خلیل قیصر کا ہوا تھا اس کے بعد آنے والے برسوں میں اداکار
شاہنواز گھمن سلطان راہی اداکارہ انجمن کے خاوند مبین ملک نامعلوم حملہ
آوروں کی فائرنگ سے موت کے گھاٹ اتارے گئے ۔
جبکہ 1972ء میں ایک بےحد مقبول و معروف فلمی رقاصہ نگو کو گھریلو ناچاقی کی
بناء پر اس کے خاوند نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا اور ساتھ
میں دو سازندے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ مگر نگو اتنی بےرحمی کے
ساتھ قتل کر دی جانے والی پہلی خاتون فلمی شخصیت تھی ۔ اس کے بعد پشتو
فلموں کی سب سے بڑی ہیروئین یاسمین خان کیریکٹر ایکٹریس نگینہ خانم، آفرین
بیگ، نیناں، سپنا، ماروی اور نادرہ بھی خود اپنے خون میں نہلا دی گئیں ۔
عندلیب پر تیزاب پھینکا گیا ۔ ماضی کی چائلڈ سٹار پھر سپورٹنگ ہیروئین اور
آج کی معروف ٹی وی کیریکٹر ایکٹریس ندا ممتاز پر بھی ان کے دور جوانی میں
قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئی تھیں گولی اُن کے
جبڑے کو چھوتی ہوئی گزر گئی تھی اور اُس زمانے کے اخبارات میں تفصیل شائع
ہوئی تھی کہ اُن پر فائرنگ کس نے اور کیوں کروائی تھی؟
پھر رواں صدی کی پہلی دہائی ختم ہونے سے پہلے سمارٹ فون آ گیا انٹر نیٹ پر
سوشل میڈیا کا آغاز تو ہو ہی چکا تھا ذرائع مواصلات کی بہتات اور نت نئی
ایپس تک با آسانی رسائی نے ملکی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد کو نہ صرف اپنے
سحر میں جکڑ لیا بلکہ مختلف فورمز پر شوبز اور ماڈلنگ کے شعبے سے تعلق
رکھنے والی خواتین کی مادر پدر آزاد وڈیوز نے فحاشی و بےحیائی کے فروغ میں
اپنا بھرپور حصہ ڈالا اب بصارتیں سینما یا ٹی وی اسکرین کی محتاج نہ رہیں ۔
ہر طرح کا مثبت و منفی مواد صارفین کی مٹھی میں اور ایک کلک کے فاصلے پر
تھا ۔ ملک بھر میں وی لاگنگ کا ایک سیلاب آ گیا ۔اور اسی ڈیجیٹل دور میں
ایک، گاؤں کی غریب نیم خواندہ طلاق یافتہ لڑکی فوزیہ عظیم اپنے حالات کی
جنگ لڑتے لڑتے اس کارزار میں آ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر
چھا گئی کسی قسم کا کوئی اسکل یا ٹیلنٹ نہ ہونے کے باوجود وہ صرف اپنی
خوبروئی صاف گوئی اور “خوش لباسی” کی بدولت میڈیا انفلوئنسر بن گئی اور
اپنے خاندان کی واحد کفیل بھی ۔ سب کے وارے نیارے ہوئے پڑے تھے پھر اسی
نمود و نمائش کی کمائی پر عیش کرنے والے اس کے ایک چھوٹے بھائی کو غیرت کا
بخار چڑھا اور ایک رات اُس مرد مجاہد نے بےغیرت بہن کا گلا گھونٹ کر اسے
جہنم رسید کر دیا اور اپنی جنت کا ٹکٹ کنفرم کرا لیا ۔
جولائی 15 - 2016ء کو نکھٹو نمکحرام بھائی کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتاری
جانے والی یہ باغی سی لڑکی خود کو قندیل بلوچ کہلاتی تھی اور سوشل میڈیا کی
پہلی خاتون شخصیت تھی جس کے غیرت کے نام پر انتہائی بہیمانہ قتل نے دیسی
سوشل میڈیا کی بنیادیں لرزا دی تھیں ۔ پھر اس کے بعد سوشل میڈیا پر متحرک
رہنے والی لڑکیوں کا غیرت یا رقابت کے نام پر خود اپنوں یا کسی پرائے کے
ہاتھوں قتل عام کا ایک سلسلہ چل پڑا ۔ حرا انور، صبا افضال، انشاء ساجد،
مسکان اور تھل کی شہزادی اقراء وڈیو بلاگنگ کی پاداش میں بے دردی کے ساتھ
ابدی نیند سُلا دی گئیں ۔ ٹک ٹاک اب ایک مقتل بن چکا ہے لڑکیوں کے خون ناحق
کی ایک بڑی وجہ والدین کی غیر ذمہ داری، دینی تعلیم و تربیت کے فقدان اور
اُن کی سرگرمیوں سے چشم پوشی پر عائد ہوتی ہے ۔ 2 جون 2025ء کے روز ہماری
پوری نیوز فیڈ ثناء یوسف نامی ٹک ٹاکر کے قتل کی خبروں سے اٹی پڑی تھی اس
لڑکی کا پہلے کبھی نام تک نہیں سنا تھا نہ شکل دیکھی تھی ایک جنونی کے
ہاتھوں اس کی ہتیا ہوئی تو معلوم ہوا کہ اتنی کم عمر مگر بلحاظ فالوورز وہ
کتنی بڑی میڈیا انفلوئنسر تھی ۔ ہنستی مسکراتی زندگی کی رعنائیوں اور رنگ و
روپ کی تابانیوں سے بھرپور ایک معصوم و نوخیز کلی جو انتہائی درندگی و
شقاوت کے ساتھ زندگی کی خوشبو سے محروم کر دی گئی ۔ سفاک قاتل کے اس اقدام
کے ڈانڈے کہیں نا کہیں جا کے اسی نام نہاد غیرت سے مل جاتے ہیں جو لڑکی کے
انکار سے چوٹ کھائی ہوئی ناگن کی طرح بپھر اٹھی تھی ۔ وہ انا جو ایک پبلک
فگر کو اپنی پراپرٹی سمجھنے پر بضد تھی ۔ بہت کم وقت میں بہت نام کما جانے
والی ثناء کا سائبر سفر بھی عین اس کے دور عروج میں صفر ہو گیا اور اس کے
سوشل میڈیا اکاؤنٹس مزید فالوورز سے مالا مال ہو گئے گویا تاریخ نے اپنے آپ
کو دوہرایا ۔ ایک اور مماثلت یقینی نظر آ رہی ہے قندیل بلوچ کا قاتل صاف بچ
نکلا کیونکہ اس کا سب سے بڑا سپورٹر خود اس کا اپنا باپ تھا ۔ ثناء کا قاتل
بھی قرار واقعی سزا سے محفوظ رہے گا کہ یہی ہمارے سماج کا رواج ہے روایت ہے
یہی رسمِ بے ضمیری ہے ۔ |