فاطمہ کے بازوؤں میں ننھا یوسف سویا ہوا تھا، جیسے زیتون
کی ایک نرم شاخ ہو جو ابھی تازہ تازہ اگی ہو۔ اس کے گالوں پر چاندنی کے عکس
کی طرح نرماہٹ تھی۔
دنیا کی ساری نعمتیں جیسے اس کی گود میں آرام کر رہی تھی،جیسے چودھویں کا
چاند آسمان پر چمکتا ہے اور اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ویسے ہی فاطمہ خود کو
متوجہ کیے ہوئے تھی ،وہ سوتا تو فاطمہ کا دل موم ہو جاتا، جیسے زخموں سے
چور سینے میں کوئی امید کی کرن جاگ گئی ہو یا یوں سمجھیں کہ کسی بیمار کو
ماں کی آغوش میں سکون مل گیا ہو۔
یوں تو انبیاء کی سرزمین تھی لیکن امن کے دشمنوں کے پہرے ہیں اور غزہ کی
گلیوں میں ہر قدم پر ماضی کا ایک زخمی سایہ چلتا تھا۔ کہیں کسی دیوار پر
خون کی لکیر تھی تو کہیں کسی کھڑکی سے خالی نگاہیں جھانک رہی تھیں۔
کسی گلی کے کونے پر کوئی بھوکا پیاسا کھانے کا منتظر تھا تو کہیں ویران گھر
کے ملبے پر کوئی اپنوں کو رو رہا تھا، لیکن ان ہی ویران راستوں میں فاطمہ
ہر صبح یوسف کو گود میں لے کر نکلتی، گویا وہ ایک جلتا ہوا چراغ لے کر
اندھیرے کو چیلنج دینے جا رہی ہو۔
وہ غزہ کی فضاؤں کو گواہ بنا رہی ہے کہ ایک دن یہ میرا یوسف دشمنوں کے تخت
زمین بوس کر دے گا ۔
جہاں جہاں غزہ کی زمین پر معصوم بچوں کا خون گرا ہے وہاں وہاں ایک دن میرا
یوسف امن کا پودا لگائے گا۔
یہ چراغ، فاطمہ کا بیٹا، اس کے شوہر ہادی کی آخری نشانی تھا۔ ہادی… جو
قہقہے بکھیرتے ہوئے دنیا سے گیا۔جو ظالموں کے سامنے ڈٹ گیا ،جس نے مزاحمت
کو اپنے لہو کا فرض جانا۔ وہ اکثر کہتا تھا:
"فاطمہ، ہم مریں گے تو کیا؟ ہمارے بچوں کی ہنسی باقی رہنی چاہیے۔ اگر ایک
نسل ختم ہو جائے، تو دوسری کو ہمت دو۔ انہیں مت کہنا کہ ان کے باپ مارے گئے،
کہنا کہ ان کے باپ ڈٹے رہے۔"
ہادی کا خاندان بھی آزادی کی خواہش لیے ظلمت کا سامنا کرتے ہوئے اس فانی
دنیا سے ابدی سفر کر گئے لیکن ہادی کے باپ اور دونوں بڑے بھائیوں نے سرزمین
فلسطین کے امن کی خاطر جان قربان کر دی مگر دشمنوں کے سامنے شکست تسلیم
نہیں کی ،
ہادی کی گود میں اس کے پیاروں نے آخری سانسیں لی لیکن ہادی نے حوصلہ نہیں
ہارا ،وہ لڑتا رہا ،کسی خونی رشتے کا ہاتھ تھامے بغیر ہی جوانی کی دہلیز پر
آ کھڑا ہوا اور دشمنوں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں مظلوموں کی مدد کرتے
ہوئے اپنے باپ کی میت پر روتی ہوئی بے بس و بہادر فاطمہ دکھائی دی ،
یوں ہادی کے کمانڈر ابو عبداللہ نے فاطمہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور
اسے اپنے ساتھ لے آئے ،
کمانڈر ابو عبداللہ نے فاطمہ کو بیٹی بنا کر ہادی کے ساتھ نکاح کروا دیا
اور یوں خوشیوں سے محروم لوگوں کو چند پل کے لیے مسکراہٹوں کی وارثت ملی،
ایک دن دشمن کے اچانک حملے میں کمانڈر ابو عبداللہ شدید زخمی ہوئے تو انہوں
نے ہادی کو اپنا نائب مقرر کر دیا ،
چند دن زخمی رہتے ہوئے کمانڈر ابو عبداللہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور
ان کی شہادت کے بعد ساتھیوں نے ہادی کو اپنا نیا کمانڈر منتخب کر لیا ،
ہادی پر ایک بڑی ذمہداری آ گئی تھی ، وہ فلسطین میں امن چاہتا تھا ، آزادی
کی زندگی چاہتا تھا ، لیکن والدین اور کمانڈر کی شہادتوں کا بدلا لینا بھی
اس کے خون میں شامل تھا اور یہ بدلہ لینے کی خواہش محبت کی کئی منزلیں اپنے
پاؤں تلے روند دیتی ہے،لہذا اس نے ایک مضبوط حکمتِ عملی تیار کی اور فوری
دشمن پر وار کرنے کی بجائے انتظار کو ترجیح دی،
ایک سال تک مسلسل تیاری ، لشکر میں اضافہ اور مطلوبہ ہدف کے حصول کے جب
مکمل یقین ہوگیا تو چاند کی چودھویں رات کو بھرپور حملے کا فیصلہ کر لیا
گیا ،
فیصلے کی گھڑی قریب آ پہنچی ، چودھویں رات کی چاندنی میں ایک بھرپور حملہ
کیا گیا اور دشمن کو خاک میں تو ملا دیا تھا لیکن ہادی سپہ سالار ہونے کے
ناطے سب سے آگے بڑھ کر لڑ رہا تھا جو کہ اس کے منصب کا فرض بھی تھا لیکن
اسی دوران دشمن کی جوابی کارروائی سے وہ شدید زخمی ہو چکا تھا لیکن حوصلہ
بلند رکھے ہوئے تھا ،اپنی جگہ نیا کمانڈر نامزد خود کیا اور فوج آگے بڑھنے
لگی لیکن ہادی فاطمہ کے ساتھ وہیں ایک درخت کے نیچے رک گیا کیونکہ شدید
زخمی ہونے اور خون بہہ جانے کی وجہ سے چلنے سے قاصر تھا، زندگی کی امید ختم
ہوتی جا رہی تھی،یوں ہادی نے امن کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہ
کیا اور پوری ایمانداری سے امن کے لیے کوشاں رہا ، اسرائیل کے ظالموں کے
سامنے صرف ایمان کا حوالہ ہی لڑ رہا تھا کیونکہ اسرائیل جدید ہتھیاروں سے
لیس اور ادھر ہادی اور اس کے رفقاء ایمان کی دولت سے مالامال مقابلہ کر رہے
تھے ،
فاطمہ کی آغوش میں ہادی نے آخری سانس لی اور خود کو اللہ کے سپرد کر دیا ۔
فاطمہ بہادر تھی ، شہادتوں کی امین تھی ،حوصلے کا پہاڑ تھی ،اپنے ہاتھوں سے
اپنے سر کے تاج اور امن کے داعی کو اسی جگہ درخت کے نیچے دفن کیا اور ہادی
کی اپنے پیٹ میں پلتی نشانی لیے جنگی گروپ سے الگ ہو گئی ،
ہادی کی شہادت کے بعد فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو سوکھ گئے تھے، خوشیوں کے
مشترکہ سارے خواب دفن ہو چکے تھے ، جیسے کسی ویران چشمے کی تہہ میں نمی
باقی نہ رہی ہو۔ لیکن ایک یقین باقی تھا کہ خدا ہے ،اس کے ہونٹوں پر دعا کا
کلمہ ہمیشہ تر رہتا۔
اللہ نے فاطمہ کو یوسف جیسی نعمت سے نوازا ،وہ جانتی تھی کہ یوسف کی سانسوں
کی قیمت اب صرف ماں کی دعا ہے اور ماں کی دعا رب العالمین کبھی رد نہیں
فرماتے ۔
فاطمہ جنگی گروپ سے الگ ہو چکی اور واپس اپنے گاؤں میں رہنے لگی،اپنے شوہر
کی یاد میں ایک زیتون کا درخت اپنے گھر میں مزید لگا لیا ،بڑی دیکھ بھال
کرتی ،باتیں کرتی ،یہی اس کی زندگی تھی ،
اس کے محلے میں اکثر خواتین یتیم بچوں کو چھپا کر رکھتی تھیں، کہ اسرائیلی
فوج کی نگاہ ان پر نہ پڑے۔ کچھ بچوں کو سرحد پار اسمگل کرنے کی کوشش بھی کی
گئی، لیکن فاطمہ کا یوسف… وہ کسی پناہ میں نہیں تھا۔ وہ زیتون کے اسی پیڑ
کے سائے تلے پل رہا تھا، جس کے نیچے ہادی نے آخری بار فاطمہ کو کہا تھا:
"اگر میرے لہو سے اگے ہیں زیتون تو مجھ پر کوئی مٹی نہ ڈالنا، بس اگنے
دینا…"
ایک دن صبح سویرے، جب فضا میں بارود کی بُو کم تھی، اور پرندے کسی معجزے سے
واپس لوٹے تھے، فاطمہ نے یوسف کو گود میں لیا اور مسجد اقصیٰ کی سمت نکل
پڑی۔
راستے میں ایک لڑکی، زہرہ، اسے ملی، جو زخمی بچوں کی نرس تھی اور کسی فلاحی
ادارے کے سائے تلے انسانیت کی خدمت کر رہی تھی۔ زہرہ نے فاطمہ کا ہاتھ
تھاما:
"تم مسجد کی طرف جا رہی ہو؟ جانتی ہو، وہاں آج قابض فوج کی بھاری نفری ہے۔"
فاطمہ نے مسکرا کر یوسف کے چہرے پر ہاتھ پھیرا: "یہ بچہ صرف ماں کی گود میں
نہیں، اللہ کی امان میں ہے۔ مسجد اقصیٰ میرا وعدہ ہے، ہادی سے…"
زہرہ خاموش ہو گئی۔ اس خاموشی میں کئی صدیوں کی شکست، کئی ماؤں کی چیخیں،
اور کئی بیٹوں کی قربانی، کئی بہنوں کی صدائیں ،کئی بچوں کی پکاریں چھپی
تھی۔
جب وہ مسجد کے دروازے پر پہنچی، تو سپاہیوں نے اسے روکا۔ لیکن فاطمہ نے
یوسف کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا:
"اگر تمہیں میری تلاشی لینا ہے، تو پہلے اس بچے کے دل کو چیر کر دیکھ لو…
اس میں صرف امن کی دعا ہے۔"
سپاہی ایک لمحے کو ٹھٹھک گئے۔ اس لمحے میں شاید کوئی غیبی رعب تھا، یا شاید
فاطمہ کے لہجے میں کوئی ایسی ماں بول رہی تھی، جس کی آہوں سے عرش ہل جائے۔
انہیں گزرنے دیا گیا۔
مسجد کے صحن میں پہنچ کر فاطمہ نے سجدہ کیا۔ وہ سجدہ جس میں شکر تھا، صبر
تھا، اور وہ سب کچھ جو ایک فلسطینی ماں کے دل میں چھپا ہوتا ہے۔
اس دن، فضا میں کوئی دھماکہ نہ ہوا۔ زیتون کی شاخیں ہلکی ہوا میں جھومتی
رہیں، جیسے کسی ان دیکھے خواب کی تعبیر مل گئی ہو۔ اور فاطمہ نے اپنے بیٹے
کے کان میں کہا:
"یاد رکھنا، بیٹا… زیتون کی جڑیں زمین سے جڑی ہوتی ہیں، لیکن اس کے خواب
آسمان سے۔ تم ان خوابوں کو کبھی مرنے نہ دینا۔"
رات کے سناٹے میں جب گولوں کی گونج کچھ دیر کے لیے پھر تھمتی، تو فاطمہ کی
نیند آنکھوں میں اتر آتی۔ لیکن وہ نیند جسے ہم سکون کہتے ہیں، وہ تو کب کی
اس دھرتی سے ہجرت کر چکی تھی۔ اب تو نیند بھی ایک دھماکے کی مانند آتی اور
اگلے ہی لمحے کسی ماں کی چیخ میں تحلیل ہو جاتی۔
فاطمہ کے بازوؤں میں ننھا یوسف سویا ہوا تھا، جیسے زیتون کی ایک نرم شاخ ہو
جو ابھی تازہ تازہ اگنی ہو۔ اس کے گالوں پر چاندنی کے عکس کی طرح نرماہٹ
تھی۔ وہ سوتا تو فاطمہ کا دل موم ہو جاتا، جیسے زخموں سے چور سینے میں کوئی
امید کی کرن جاگ گئی ہو۔
فاطمہ کو یاد آیا وہ دن، جب یوسف کی پیدائش کے وقت باہر بھی گولہ باری ہو
رہی تھی۔ نرس نے تھرتھراتی آواز میں کہا تھا: "بی بی، یہ بچہ شہادت کے سائے
میں پیدا ہوا ہے... اسے سنبھال کر رکھنا، یہ چراغ اندھیروں سے لڑنے آیا
ہے۔"
یہ جملہ اس کے دل پر نقش ہو گیا تھا۔
گھر کے کچے صحن میں زیتون کا پیڑ اب بھی کھڑا تھا، ویسا ہی خاموش، ویسا ہی
وفادار۔ یہ پیڑ فاطمہ کے والد نے لگایا تھا، تب وہ چھوٹی سی تھی۔ پیڑ نے نہ
صرف ان کے خاندان کو چھاؤں دی، بلکہ اس کے سائے میں فاطمہ نے پہلی بار اپنے
شوہر، ہادی، کو بھی دیکھا اور آخری بار رخصت بھی کیا تھا۔
ہادی… کتنا نرم گو، حوصلہ مند اور خدا پر یقین رکھنے والا مرد تھا۔ وہ
ہمیشہ کہتا: "ہماری مائیں اگر روتی رہیں، تو ہماری بیٹیاں کب مسکرائیں گی؟
ہمیں رونا نہیں، لڑنا ہے…"
لیکن ایک دن، وہ خود لڑتے لڑتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔
فاطمہ نے شوہر کی شہادت پر آنسو نہیں بہائے تھے۔ صرف یوسف کی پیدائش کے بعد
اسکو گود میں لے کر زیتون کے پیڑ کے نیچے بیٹھ جاتی اور آسمان کی طرف دیکھ
کر کہا کرتی کہ: "پروردگار! اگر میرا ہادی گیا ہے، تو میرا یوسف سلامت رہے…
اس کی حفاظت تو اپنے فرشتوں سے فرما۔۔۔۔"
فلسطین میں وقت کا چلن کچھ اور ہے۔ یہاں لمحے سالوں کے برابر ہوتے ہیں اور
ایک دن میں انسان بچپن سے بڑھاپے کی سیریں کر آتا ہے۔
یوسف اب سات برس کا ہو چکا تھا۔ اتنے برسوں میں فاطمہ نے ہر دکھ کو صبر کے
پانی میں بھگو کر پیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو وہ لوریاں سنائیں جن میں بارود
کی بو تھی، لیکن ماں کے ہونٹوں سے وہ شربت بن جاتی تھی۔
ایک دن یوسف نے سوال کیا: "امی، میرے ابو کہاں ہیں؟"
فاطمہ کا دل لرز گیا۔ وہ لمحہ وہی تھا جب ماں کو ماں ہونے کے ساتھ ساتھ
تاریخ کا مورخ بھی بننا پڑا۔
فاطمہ جانتی تھی کہ فاصلوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ فیصلوں پر یقین رکھتے
ہیں اس نے بیٹے کے بال سہلاتے ہوئے کہا:
"وہ زیتون کے اس پیڑ میں چھپے ہیں، جو ہمیں سایہ دیتا ہے… جب تم بڑے ہو جاؤ
گے تو وہ تمہیں خود ملنے آئیں گے۔"
یوسف نے خاموشی سے ماں کی آنکھوں میں جھانکا، اور شاید وہاں کچھ ایسا پڑھا
جس نے اس کے اندر کوئی جلتا چراغ روشن کر دیا۔
وقت گزرتا رہا۔ محلے کے لڑکے گولیوں کی آواز سن کر چھپتے، لیکن یوسف کھڑکی
سے باہر جھانکتا۔ ایک دن فاطمہ نے پوچھا: "تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟"
یوسف نے جواب دیا: "امی، جس دن میں پیدا ہوا تھا، تب ہی دنیا کا سب سے بڑا
دھماکہ ہوا تھا نا؟ پھر اب کس چیز سے ڈروں؟"
فاطمہ اس کے حوصلے پر حیران رہ گئی۔ اسے لگا جیسے ہادی کی روح اس کے بیٹے
میں اتر آئی ہو۔
اسی سال شہر میں ایک بڑی کارروائی ہوئی۔ یوں سمجھیں کہ ایک قیامت برپا ہوئی
تھی ،کئی گھروں کو ملبے میں بدل دیا گیا۔
فاطمہ کا گھر بھی جزوی طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ زیتون کا پیڑ آدھا جھک چکا
تھا، لیکن جڑیں سلامت تھیں۔ فاطمہ نے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر آنکھیں بند کیں
اور دیر تک سورہ یٰسین پڑھتی رہی۔
ایک رات، یوسف اچانک بولا: "امی، میں بڑا ہو گیا ہوں۔ اب مجھے بھی لڑنا
ہے۔"
فاطمہ نے آنکھیں نم کر کے اس کے ماتھے کو چوما: "پہلے علم حاصل کرو، کیونکہ
سب سے بڑی جنگ قلم سے لڑی جاتی ہے۔ تم فادی کے بیٹے ہو، وہ بھی قرآن کے
حافظ تھے۔"
یوسف نے وعدہ کیا۔ اگلے ہی دن وہ قرآن مدرسے میں داخل ہو گیا۔ دن رات قرآن،
حدیث، اور عربی زبان سیکھتا رہا۔ فاطمہ اسے زیتون کا تیل لگا کر مسجد
بھیجتی، جیسے کسی شہزادے کو میدان میں اتار رہی ہو۔
تین سالوں میں جب یوسف نے قرآن حفظ کر لیا، تو پورے محلے میں چراغاں کیا
گیا۔ ہر کسی نے فاطمہ کو مبارکباد دی۔ کسی نے کہا: "تمہاری کوکھ واقعی
زرخیز ہے۔" کسی نے کہا: "یہ بچہ شہیدوں کی نسل ہے۔"
اس روز فاطمہ نے پہلی بار فادی کے لیے آنسو بہائے۔
پھر ایک دن، جنگ نے نیا رخ لیا۔ یوسف کو مسجد سے واپسی پر اسرائیلی فوج نے
روک لیا۔ کاغذات نہ ہونے کے باعث اسے حراست میں لے لیا گیا۔
فاطمہ پاگلوں کی طرح چھت پر چڑھ گئی، اور زیتون کے پیڑ سے لپٹ کر کہا: "اگر
تُو میرے باپ کی نشانی ہے، اگر فادی کی یاد ہے، تو میرے یوسف کو واپس لا
دے…"
تین دن بعد، یوسف واپس آیا۔ آنکھوں میں تھکن تھی، لیکن دل میں روشنی۔ اس نے
ماں کو بتایا: "میں نے جیل میں بھی قرآن پڑھا… وہاں سب قیدیوں نے کہا،
تمہاری ماں خوش نصیب ہے…"
فاطمہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔ زیتون کی شاخوں میں ہوا سرسرائی۔ کہیں دور
اذان کی آواز آئی۔ ایک نئی صبح طلوع ہو رہی تھی،
اور فاطمہ نے خود سے کہا: "یہ دھرتی زخم بھی دیتی ہے اور چراغ بھی… میں ماں
ہوں… میں زیتون کی شاخ ہوں… ہمیشہ سبز رہوں گی۔"
اور پھر یوسف نے ماں کے قدم چوم کر کہا:
"امی، اب میں علم کے ساتھ ساتھ سچائی اور حق کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاؤں
گا۔ میں نہ صرف فلسطین کا بیٹا ہوں، بلکہ اس اُمت کی امید ہوں جسے آج بھی
ماں کی دعاؤں کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے دھرتی ماں کے لیے لڑنا ہے۔"
فاطمہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ زیتون کے درخت پر ایک نیا کونپل پھوٹ رہا
تھا۔
یہ صرف ایک درخت نہیں تھا… یہ نسلوں کی قربانی، دعاؤں کی قبولیت، اور ایک
روشن کل کی نوید تھا۔
زمین زخمی تھی، لیکن ماں کا دل مطمئن تھا۔ اس نے ایک سپاہی نہیں، ایک عالم،
ایک چراغ، اور ایک نئی صبح کو جنم دیا تھا۔
نوٹ!
پڑھ کر اپنی رائے دیں اور ساتھ یہ بھی کہ کونسی صنفِ ہے ۔
|