آج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچے بدتمیز اور خودسر ہو
گئے ہیں، بزرگوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے اس حوالے سے عموماً یہ سمجھا
جاتا ہے کہ جوائنٹ سسٹم میں پرورش پانے والے بچے زیادہ پر اعتماد، نڈر اور
معاملہ فہم ہوتے ہیں جب کہ ایک کثیر تعداد کا ماننا ہے کہ والدین ہی ہیں جو
بچے کو جیسا چاہتے ہیں بنا دیتے ہیں. ہوتا یوں ہے کہ مشترکہ خاندان کے بڑے
جن خصوصیات کے حامل ہوں وہی عادات بچوں میں غیر محسوس طریقے سے سرائیت کر
جاتی ہیں، اگر بڑے لحاظ،مروت اور ایک دوسرے کی اچھی عادات کے قدر دان ہوں
گے اور باہمی کشا کش سے گریز کریں گے، ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں گے
تو بچے بھی یہی کچھ اپنائیں گے لیکن اگر ایسا ماحول بچے نہیں پاتے اور بچوں
کی غلط عادات کو تقویت والے افراد با اثر ہیں اور مائیں بے بس ہیں تو یہ
صریحاً غلط ہے اور اس کے نتائج بھی بھیانک ہیں. دوسری طرف اگر والدین با
اثر ہیں اور اس کے باوجود بچے میں غلط رحجانات پائے جا رہے ہیں تو بلاشبہ
والدین قصور وار ہیں.
بے شک بچے کا تزکیہ و تربیت والدین ہی کی ذمہ داری ہے اگر والدین بچے کے
نگران ہیں تو نگرانی کا فریضہ احسن انداز میں نبھانے کا سلیقہ انہیں آنا
چاہیئے. اگر آپ کا بچہ دادا، دادی کا احترام کرتا ہے، انہیں زچ نہیں کرتا
اور دادا دادی کے گھر میں ان کے رولز کو فالو کرتا ہے تو بلاشبہ یہ آپ کی
اچھی تربیت کی نشانی ہے. اگر آپ تفریح طبع کے لئے بچوں کو کچھ دیر کے لئے
اپنے عزیز واقارب کے پاس چھوڑنا چاہتے ہیں تو بچوں کے با سلیقہ اور شائستہ
رویے جہاں آپ کا سر فخر سے بلند کریں گے وہیں بچے کے غیر مہذب اطوار اور
ضدی رویے آپ کے غیر سنجیدہ اور نا پختہ ذہن کی عکاسی کریں گے.
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کو سراہا جائے تو آپ کو انہیں قابو کرنا
آنا چاہیئے، بے شک تربیت کے لحاظ سے سنجیدہ والدین کی محض ایک نظر بھی محفل
میں بچوں کو بے ادب ہونے سے روکتی ہے. اگر آپ کے بچے گھر میں با ادب اور
اصولوں کی پاسداری کرنےَ والے اور کہا ماننے والے ہیں تو یہی مہذب اطوار
انہیں ہر جگہ اپنانے چاہئیں.اگر والدین کے سامنے بچہ بزرگ کی بات کو نظر
انداز کر رہا ہے اور والدین بجائے شرمندہ ہونے کے خاموشی بزرگ کو بچے کے
ہاتھوں زچ ہوتا دیکھ رہے ہیں تو یہ والدین کے غیر سنجیدہ اور دوہرے رویے کی
نشان دہی کرتا ہے.
جانتے ہیں ،اللہ نے حقوق اللہ میں کمی بیشی معاف کرنے کی ضمانت دی ہے لیکن
حقوق العباد کی معافی اسی صورت میں ہے جب متاثرہ انسان خود معاف کرے اچھے
والدین اللہ کی اس صفت کو ضرور اپناتے ہیں وہ اپنے ساتھ تو بچے کے باغی
رویے سے صرف نظر کر سکتے ہیں لیکن بچہ بزرگوں کے ساتھ غلط رویہ اپنائے تو
یہ مثبت ذہن کے والدین گوارا نہیں کرتے. اللہ کی طرف سے دی گئی طاقت و
اختیار کا ناجائز استعمال کر کے اگر بندہ، بندے کی حق تلفی کرتا ہے اللہ
معافی کی ضمانت کا اختیار اس بندے کو تفویض کر دیتا ہے جس کے حق میں زیادتی
ہوئی ہے اسی طرح اچھے والدین بھی بچے کی غلط عادات کی سر پرستی نہیں کرتے
بلکہ زجرو توبیخ کا اختیار اس بڑے کو دیتے ہیں جس سے غیر شائستہ رویہ بچہ
اپناتا ہے.
آئیں، بچوں کی اچھی تربیت کے حوالے سے سر گرم ہو جائیں تا کہ اللہ کی نظر
میں خیر کی سر پرستی کرنے والوں میں ہمارا شمار ہو جائے، امین
|