کیا مسلم دنیا اب ان نئے طرز کی صلیبی جنگوں کے لیے تیار ہے؟

42 کے عرصہ تک حکومت کرنے کے بعد قذافی اس دنیا سے چلے گئے ۔ قذافی کی شکست اور انکا باغیوں کے ہاتھوں قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، نہ اس کی ہیت مغرب نواز میڈیا جیسی ہے کہ قذافی کی موت ایک انقلاب کی شروعات ہے، آمریت کے دور کا خاتمہ ہے۔ بے شک قذافی ان 42 برسوں میں مطلق العنان آمر بن بیٹھے تھے مگر اس کے پس پردہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب تک یہ حکومت مسلم عوام کے ہاتھ تھی۔ لیکن نیٹو کی بے جا مداخلت اور امریکہ کی دخل اندازی سے اب جب حکومت قائم ہوگی وہ مغربی آقاﺅں کے اشاروں پر چلنے والی ہوگی۔

ظاہری طور پرلیبیا میں باغیوں کی جیت ہوئی ہے مگر یہ جیت باغیوں کی برائے نام ہوکر حقیقتاً امریکہ اور یورپ بلکہ صاف لفظوں میں صلیبیوں کی ہوئی ہے۔ صلیبی اتحاد نے اب جنگ لڑنے کا نیا اور کار گر طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ افغانستان اور عراق جنگ نے نہ صرف امریکہ اوریوروپی ممالک کو بلکہ ساری دنیا کی معیشت کو مندی میں جھونک دیا ۔ ان دونوں جنگوں میں کثیر مال اور قوت کے صرف ہونے سے عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان جنگوں میں امریکہ اور اسکے حلیف صلیبی ممالک نہ صرف نفسیاتی اور معاشی دونوں سطحوں پر بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ایسے میں ایران و ترکی میں اسلام پسندی کی لہر مغربی اقوام کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف اپنے سر کی بلا مشرقِ وسطی کے سر منڈھ کر ناپاک اسرائیل کی بنیاد رکھنے اور اسکی حفاظت کاذمہ لینے والے مغربی صلیبی ممالک اسرائیل کے اطراف بسے مسلم ممالک کو لے کر ہمیشہ فکر مند رہتے آئے ہیں۔ لیبیا ایک ایسا ملک تھا جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتا تھا۔ ایسے میں صلیبی برادری کو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح لیبیاپر بھی افغانستان اور عراق کی طرح فوجیں جھونک دیں مگر مشکل یہ تھی کہ سابقہ جنگوں کے تلخ تجربے اور ناکامی کے باعث انکی ہمت نہیں ہورہی تھیں۔

ایسے میں عالمی حالات نہایت تیزی سے تبدیل ہونے لگے۔ ایران دھیمی رفتار سے لگاتار ترقی کرنے لگا۔ ترکی اسلام کی طر ف گامزن ہورہا ہے۔ مسلم ممالک میں اسلام پسندی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ مصرمیں مغرب کی امیدوں کے برخلاف انقلاب برپا ہوگیا امریکہ نواز ، اسرائیل دوست حسنی مبارک کا تخت پر سے اتارا جانا صلیبیوں کو راس نہ آیا۔ مصر کے نقصان کی بھرپائی کرنا بھی انکے لیے ضروری ہوگیا۔ تب ان تمام مخالف حالات کو موافق بناتے ہوئے بیشتر عرب ممالک میں کرائے کے باغیوں کے ذریعے نقلی انقلاب برپا کیا جارہا ہے ۔ اسکی بغاوت کا شکار یہ مرد آہن معمر قذافی ہوئے ہیں۔

صلیبیوں کا یہ طریقہ جنگ انتہائی کارگر ثابت ہوا نہ انہیں اپنی افواج لیبیا میں اتارنی پڑیں نہ جنگ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے ۔ کرنا پڑا تو صرف یہ کہ وہاں اپنے جدید اسلحہ جات دھڑلے سے باغیوں کے ہاتھوں میں تھما دیے گئے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے بھاری ہتھیاروں سے لیس نیٹو کے طیارے مہیا کر دیے گئے ۔ ایک جدید اور آسان طریقہ جنگ کے ذریعے لیبیا کی ساری دولت صلیبیوں کے ہاتھ آگئی۔

امت مسلمہ کی بے حسی ہے کہ وہ اب صرف مغرب کے چشمے لگا کر دیکھنا پسند کر رہی ہے ۔ صلیبی جسے دہشت گرد کہہ دے وہ عالمی طور پر دہشت گرد بن جاتا ہے ۔ بھلے ہی وہ فلسطین کی مظلوم عوام ہی کیوں نہ ہو۔ جسے صلیبی امن پسند کہہ دے وہ امن پسند عالمی برداری میں امن کے پیامبر بن جاتے ہیں پھر اسرائیل کی ظالم حکومت ہو یاافغان و عراق کو غارت کر مشرق وسطی میں تباہی پھیلانے میں پیش پیش خود صلیبی اتحاد ہو۔

قذافی طاقت کے نشے میں چور ہوکر بھلے ہی اپنے مقاصد سے انحراف کر چکے تھے لیکن امت مسلمہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لیبیا ہی وہ ملک رہا جس نے اسرائیلی حملوں کا کمر بھرپور جواب دیا۔ معمر قذافی ہی وہ حکمراں رہے جنھوں نے صلیبیوں کی ظالمانہ کاروائیوں کی کھل کر مذمت کی۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے اقتدار کے دور میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سب کو کھلے عام اسلام کی دعوت دی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پہلی شرکت میں ہی اسی مرد آہن نے وہ تیور دکھائے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

امت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ وہ ہر شخص کو کامل انسان کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے جو کہ صرف انبیاءکا ہی طرہ امتیاز ہے ۔ شخصی کمیاں تو انسان میں ہی پائی جاتی ہیں۔ قذافی بھلے مطلق العنان آمر بن گئے تھے،اپنے رسوخ کا غلط استعمال بھی انہوں نے کیا تھا، مگر وہ لیبیا کی آزاد حکومت کے ترجمان تھے انکے دور میں کافی اصلاحات کی گئیں۔ اب تک لیبیا کی دولت لیبیا کے ہی ہاتھوں میں موجود تھی مگر اب انکے سفاکی سے قتل کے بعد صلیبی ممالک لیبیا میں موجود تیل کے ذخائر پر رال ٹپکانے لگے ہیں۔ مسلم حلقوں میں لیبیا کی بغاوت اور صلیبی ممالک کی مداخلت کو مثبت سمجھا جانا مسلم دنیا کی بے حسی اور سیاسی بصیرت کے فقدان کے علاوہ کچھ نہیں۔

امریکہ اور اسکے اتحادی سبھی ان نئی جنگوں کو صلیبی جنگ کی شکل دے چکے ہیں اور مسلم مملکتیں نہ صرف انتشار کا شکار ہے بلکہ انہیں بڑھاوا دینے میں مصروف ہے ۔ افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد عالمی سیاسی مبصرین کی نظریں سیریا پر تھیں کہ دیکھیں کب یہ ملک بھی صلیبی یلغار کا شکار ہوتا ہے مگر اس درمیان صیلبیوں نے حکمت بدل ڈالی اور اب لیبیا کی کامیاب جنگ کے بعدمشرق وسطی میں پیدا کردہ جھوٹے انقلابات جس میں یمن، بحرین،شام و دیگر میں اس طرز کی یلغار بہت جلد کی جائے گی ۔ ایران تو بہت پہلے سے ہی صلیبی اتحاد کو کھٹک رہا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ لیبیا سے سبق لے اور اپنے اختلافات بھلا کر متحدہ ہوجائے ۔ ( آمین)
Abdul Muqeet Abdul Qadeer
About the Author: Abdul Muqeet Abdul Qadeer Read More Articles by Abdul Muqeet Abdul Qadeer: 8 Articles with 13566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.