ہر چیز کی ایک کُنجی ہوتی ہے، جی ہاں! ایک کُنجی ہوتی ہے،
اگر وہ مل جائے تو آپ اس شے کو کھول سکتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کُنجی یعنی چابی ہم سب کے پاس ہے، جس سے ہم اپنی دنیا بنا بھی
سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے! تو آج آپ جان
جائیں گے کہ ایک ہی چابی ہے اگر وہ سیدھی گھومتی ہے تو دنیا میں آپ کو
اونچا اُڑاتی ہے یہاں تک کہ آپ جنت کے زینے چڑھ پائیں گے اور مکمل طور پر
کامیاب ہو جائیں گے اور اگر وہ الٹی گھومتی ہے تو نہ صرف آپ کا انجام دنیا
میں بھیانک ہے بلکہ یہ آخرت میں بھی آپ کو جہنم کے نچلے ترین گڑھے میں گرا
دے گی۔
یہ کُنجی زبان ہے، گوشت کا ایک ٹکڑا، جو اللہ نے آپ کو بڑے بڑے کارنامے
انجام دینے کے لیے عطا کیا، یہ راض ہے دلوں، ملکوں اور دنیا پہ حکومت کرنے
کا۔
یہ ایک خزانہ ہے وہ خزانہ جس کے ذریعے آپ بہت سے خزانوں کے راض جان بھی
سکتے ہیں اور ان راضوں کے ذریعے اپنے لیے خزانہ حاصل بھی کر سکتے ہیں۔
آہ، آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ایک خواب ہے، نہ نہ! بالکل نہیں یہ حقیقت ہے
اسے جس قدر جلدی سمجھ لیں گے اسی قدر آپ اسے استعمال کر سکیں گے، یقین
انسان کو وہ بھی دلوا دیتا ہے جو وہ ناممکن سمجھتا ہے، یہ آپ کی زبان ہے جس
کے ذریعے آپ کو طاقت، دولت، شہرت اور عزت سب مل سکتا ہے، ہر خواب کی تکمیل
کی کُنجی، آپ کی جیبھ یعنی زبان۔
چلیے سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ دلوں کا زبان سے کیا تعلق ہے، اصل خزانہ
تو دل ہے، دل آپ کا تو سامنے والے کی جیب تو ہے ہی آپ کی! اُوہُوں ابھی
مسکراہٹ کا وقت نہیں، سمجھنے کا موقع ہے، جی تو یہ جو آپ لوگوں سے ہنس کر
بات کر رہے ہوتے ہیں یہ ایک جھلک ہے چابی کے سیدھا گھومنے کی۔
مگر ایک بات یاد رکھیے، یہ صرف جھلک ہے، جب آپ کوئی فلم دیکھتے ہیں تو ہیرو
اور ہروئن ایک ساتھ نظر آتے ہیں اور بظاہر انھوں نے کوئی مشکل نہیں دیکھی
ہوتی، مگر جب آپ وہ فلم پوری دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جانے کتنی ہی
مرتبہ اس بیچارے قسمت کے مارے ہیرو نے مار کھائی ہے اس چاند کے ٹکڑے کو
حاصل کرنے کے لیے اور تو اور وہ کتنے ہی غم سہنے کے بعد بھی اس ہروئن اور
اس کے ظالم گھر والوں اور سماج کو ہنس ہنس کر ڈینٹانک کا اشتہار بن کر
برداشت کر رہا ہے، اور پھر کہِیں جا کر اس کی محنت رنگ لاتی ہے اور وہ اپنی
مطلوبہ منزل یعنی اپنی ہروئن اور اس کے گھر والوں کا دل جیتنے میں کامیاب
ہو جاتا ہے۔
اسی طرح زندگی میں بھی آپ کو ہر طرح کے لوگ ملیں گے، اچھے اور برے، اچھے
لوگوں سے اچھا برتائو اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ تو ہیں ہی اچھے، یہ
ساتھی ہیں آپ کے برے وقت کے اور جہاں تک تعلق ہے برے لوگوں کا تو ان کے
ساتھ بھی رویہ اچھا ہی رکھنا چاہیے۔
اب آپ سوچیں گے وہ کیوں؟ کوئی مجھے ذلیل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے اور
میں اس سے اچھے سے بات کروں؟ کوئی میرے اوپر، میرے گھر والوں پر، خاص کر
اولاد پر الزام لگائے اور میں اچھے سے بات کروں؟ کوئی گالی دے تو میں سلام
کروں؟ کوئی طعنہ دے تو میں مسکرا دوں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
جب مجھے معلوم ہے کہ اگلا شخص میری غیبت کرتا ہے، مجھ سے جھوٹ بولتا ہے،
مجھے دھوکا دیتا ہے، مجھے طعنے دیتا ہے، مجھے غمگین کرنے کا کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیتا تو میں اس کے ساتھ رویہ اچھا رکھوں؟ کیا یہ حماقت نہیں؟
تو جواب ہے کہ نہیں، یہ مشکل اور بے انتہا مشکل ہے، جس نے آپ کا دل توڑا،
جس نے آپ کو مختلف مواقع پر نیچا دکھایا، جس نے آپ کو آپ کی زندگی کی تلخ
یادیں یاد دلائیں، جو آپ سے حسد کرتا ہے، جو آپ کو کئی بار دھوکا دے چکا
ہے، جو آپ سے جانے کتنی ہی بار جھوٹ بول چکا ہے، جی ہاں آپ اسے اپنے ساتھ
لپٹا نہ لیں مگر اس سے اچھے سے معاملہ کریں، ہمیں سیرت النبی اور صحابہ
کرام کی زندگی سے بھی ایسی بہت سی امثال مل جائیں گی جو ہمارے اس رویے کو
روا رکھنے کے لیے ٹھوس دلیل ہیں۔
چلیے ایک مثال واقعہ افک سے لیتے ہیں، واقعہ افک یعنی وہ واقعہ جس میں ام
المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر جب الزام لگایا گیا اور پھر اللہ نے
قرآن میں اس سے متعلق آپ کی پاک دامنی کو ثابت کرنے کے لیے آیات اتاریں تو
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا جو مسطح بن اثاثہ کا خرچ اٹھاتے کہ
اللہ کی قسم میں اب اس پہ کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا آپ نے یہ بات اس لیے
کہی کہ مسطح ان لوگوں میں شامل تھے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے لیے
باتیں کرتے، جس پر قرآن میں آیت نازل ہوئی کہ "اور جو لوگ تم میں صاحبِ فضل
اور صاحبِ وسعت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں، محتاجوں اور
مہاجرین کو کچھ خرچ نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر
کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو معاف کر دے؟ اور اللہ تو بخشنے
والا مہربان ہے" (سورۃ النور، آیت 22) تو اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو
بکر رضی اللہ عنہ اللہ سے معافی طلب کرنے لگے اور توبہ کرنے لگے (صحيح
البخاري، کتاب: غزوات کے بیان میں، باب: واقعہ افک کا بیان، حدیث نمبر:
4141)۔
یعنی یہ تو ایک معاملہ ہوا کہ ہمیں اللہ کی معافی کے لیے لوگوں کو معاف
کرنا کتنا ضروری ہے، اب دوسری بات دیکھتے ہیں، جو آپ کو کوئی بات کہہ گیا
وہ تو ایک بار برائی کر گیا، اب آپ ہر بار جب اس کا عیب اسے معاشرے میں برا
بنانے کے لیے لوگوں کو بتائیں گے تو غیبت کا گناہ تو آپ ہی کے سر ہے، اور
سائنسی تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ آپ جتنا منفی سوچتے ہیں اتنا ہی منفی
بولتے ہیں اور اسی ڈگر ہماری شخصیت چلنے لگتی ہے، اب فیصلہ آپ کا ہے، کیا
آپ اپنی شخصیت خراب کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی زندگی کو منفی بنانا چاہتے
ہیں؟ جب آپ کڑوے ہو جاتے ہیں تو لوگ آپ سے بھاگنے لگتے ہیں اور جب آپ ضرورت
سے زیادہ میٹھے ہو جاتے ہیں تو یہ صفت آپ کے مفاد پرست ہونے کے لیے کافی
ہے،
ایک جگہ بہت اچھی بات سنی تھی کے جس شخص کے سب دوست ہوں اور کوئی دشمن نہ
ہو تو اس سے بڑا منافق کوئی نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس زبان کو
ضرورت کے وقت اور وقت کے تقاضوں اور حق کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیا
جائے۔
حق، ایمان اور دیانت یہ سب خزانے ہیں، یہ آپ کے لیے وقت کی چابی ثابت ہو
سکتے ہیں، یہ آپ کو دولت دلا سکتے ہیں، اچھا استاد، اچھا ڈاکٹر، اچھا سیاست
دان، سب بننے کے لیے اچھی زبان ضروری ہے اور یہی زبان آپ کو تخت پہ بٹھاتی
ہے اور آپ لوگوں کے دلوں اور بلا واستہ ان کی جیبوں پہ بھی راج کرنے لگتے
ہیں۔
|