والدین کے احترام کا سبق
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
والدین کا احترام ہم سب پر لازم ہے ،دین اسلام اس حوالے بڑا واضح پیغام دیتا ہے کہ کوئی بھی انسان ضعیف والدین کی خدمت کرکے آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے! |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) شام کے وقت ایک مشہور ریستوران میں زندگی اپنی پوری روانی سے چل رہی تھی۔ ہر میز پر خوش گپیوں کی ہلکی سرگوشیاں، کھانے کی اشتہا انگیز خوشبوئیں، اور قہقہوں کی مدھم گونج سنائی دے رہی تھی۔ ایسے میں ایک نوجوان اپنے بوڑھے والد کا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ ریستوران میں داخل ہوا۔ والد کی کمر جھکی ہوئی تھی، چہرے پر جھریاں تھیں، بال سفید ہو چکے تھے، اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ یہ باپ وہی تھا جس نے کبھی اپنے بیٹے کے ننھے ہاتھ تھام کر اسے زندگی کے راستوں پر چلنا سکھایا تھا۔ آج بیٹا اپنے باپ کا سہارا بن چکا تھا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک میز پر بیٹھ گئے۔ بیٹے نے نرمی سے والد کو کرسی پر بٹھایا، ان کا کمبل درست کیا، اور مینو کارڈ تھماتے ہوئے کہا: "ابا جی، جو دل کرے، منگوا لیں، آج کی رات صرف آپ کی ہے۔" کھانے کے دوران کبھی کبھی بزرگ والد کے ہاتھ کانپنے لگتے، اور چمچ سے کچھ کھانا ان کے کپڑوں پر گر جاتا۔ ان کے ہونٹوں سے سالن بہہ کر تھوڑی پر آ جاتا، اور کبھی پانی کا گلاس تھوڑا سا چھلک جاتا۔ اردگرد بیٹھے گاہک ناگواری سے انہیں گھورنے لگے، جیسے یہ منظر ان کی شام کے حسن کو گہنا رہا ہو۔ کچھ لوگ سرگوشیوں میں ہنسنے لگے، کچھ نے چہرے موڑ لیے۔ لیکن بیٹے کے چہرے پر کوئی شرمندگی، کوئی گھبراہٹ یا کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں میں محبت تھی، پیشانی پر سکون، اور رویے میں فخر۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے، تو بیٹا بڑی شفقت سے اپنے والد کو واش روم لے گیا۔ وہاں اس نے ان کے چہرے پر لگے کھانے کے ذرات کو نرم ہاتھوں سے صاف کیا، ان کے کپڑوں پر لگے داغ دھوئے، ان کے سفید بالوں میں پیار سے کنگھی کی، اور ان کی عینک کو صاف کر کے دوبارہ پہنا دی۔ وہ ہر کام نہایت وقار، نرمی اور محبت سے کر رہا تھا، جیسے کوئی عبادت کر رہا ہو۔ جب وہ دونوں واپس آئے، تو ریستوران کے ماحول میں ایک گہری خاموشی چھا چکی تھی۔ وہی لوگ جو چند لمحے پہلے تنقیدی نظروں سے دیکھ رہے تھے، اب حیرت، احترام اور شرمندگی سے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ بیٹا بل ادا کرنے کاؤنٹر پر گیا تو ایک معمر شخص خاموشی سے کھڑا ہوا، اس کے قریب آیا اور نرم لہجے میں بولا: "بیٹے، کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم کچھ پیچھے چھوڑ آئے ہو؟" نوجوان مسکرایا اور بولا: "نہیں، میں نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔" بوڑھے شخص کی آنکھوں میں نمی تھی۔ اس نے آہستگی سے کہا: "نہیں بیٹے، تم ایک بہت بڑی چیز پیچھے چھوڑ گئے ہو، تم نے ہر بیٹے کے لیے ایک سبق، اور ہر باپ کے لیے ایک امید چھوڑ دی ہے۔" یہ صرف ایک منظر نہیں تھا، یہ انسانیت کا آئینہ تھا۔ یہ منظر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ: "جو ہاتھ بچپن میں ہمارا تھوکا ہوا چہرہ صاف کرتے تھے، آج وہ ہمارے سہارے کے مستحق ہیں۔" ہمارے والدین، دادا دادی، نانا نانی یا وہ تمام بزرگ جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہماری خوشیوں کے لیے وقف کر دیا، کیا وہ آج ہماری توجہ، وقت اور محبت کے حقدار نہیں؟ ہماری مصروف زندگی، ہماری ترجیحات، اور ہماری دنیاوی دوڑ کب ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم جس مقام پر ہیں، اس کی بنیاد کسی اور کی قربانی ہے؟ زندگی کے سب سے بڑے اعزازات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم لوگوں کی خدمت کریں جنہوں نے کبھی ہماری خدمت کی تھی۔ یہ کام ہمیں کمتر نہیں بناتا، بلکہ انسانی عظمت کے بلند ترین مقام پر لے جاتا ہے۔خدمت صرف وقت دینا نہیں، بلکہ دل سے جُڑنا، احساس بانٹنا اور محبت لوٹانا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت ایک دائرہ ہے۔ آج ہم اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں گے، کل ہمارے بچے ہمیں دیکھیں گے۔جو آج بوڑھوں سے بے پروا ہو گا، کل اس کے بڑھاپے میں وہی بے پرواہی اس کا مقدر بنے گی۔ جو شخص اپنے والدین کے قدموں میں جھک جاتا ہے، زمانہ اس کے قدموں میں بچھ جاتا ہے۔ آئیں، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے والدین اور بزرگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کی ترجیح بنائیں گے۔ یہی وہ عمل ہے جو نہ صرف دنیا میں ہمیں عزت دے گا بلکہ آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ بنے گا۔ |
|