�ٹرمپ کا مخالف نوجوان
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
آج جب دنیا بھر میں انتہا پسندی، نسل پرستی اور امیگریشن مخالف جذبات کو سیاسی طاقت حاصل ہو رہی ہے، ایسے میں نیویارک شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاستدان زوہران ممدانی ایک توانا اور جرات مند آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ زوہران ممدانی نہ صرف ترقی پسند سیاست کی علامت ہیں بلکہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہیں جس کی قیادت فی الوقت خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔
زوہران ممدانی 30 اپریل 1991 کو یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، پروفیسر محمود ممدانی، دنیا بھر میں معروف سیاسی مفکر اور اسکالر ہیں، جن کا تعلق بھارتی نژاد اسماعیلی مسلمان خاندان سے ہے۔ محمود ممدانی نے نو آبادیاتی تاریخ، افریقی سیاست اور شناخت کے موضوعات پر گہری تحقیق کی ہے اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
زوہران کی والدہ، میرا نائر، عالمی شہرت یافتہ بھارتی فلم ساز ہیں، جو بھارت کے صوبے اوڑیسہ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی فلمیں، جیسے سلام بمبئی، من سون ویڈنگ اور دی نیم سیک، نہ صرف عالمی فلمی میلوں میں سراہا جا چکی ہیں بلکہ ان میں سماجی مسائل، شناخت اور انسانیت کا درد نمایاں نظر آتا ہے۔
زوہران ممدانی نے بچپن سے ہی ایک کثیرالثقافتی اور وسیع سوچ رکھنے والے ماحول میں پرورش پائی۔ وہ مذہبی طور پر خود کو مسلمان کہتے مگرسیکولر سوچ کے حامل ہیں۔ انہیں انگریزی، ہسپانوی، اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں پر عبور حاصل ہے، جو انہیں نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں عوام کے قریب تر لے آتی ہے۔
2020 میں زوہران ممدانی نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے حلقہ 36 (آسٹوریا کوئنز) سے انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری میں اس وقت کی رکن اسمبلی اراویلا سیموتاس کو شکست دی۔ اراویلا کا تعلق یونانی نژاد آرتھوڈوکس عیسائی کمیونٹی سے تھا اور وہ یونانی کمیونٹی میں خاصی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔
زوہران نے کرایہ داروں کے حقوق، سستی رہائش، مفت صحت کی سہولیات، پولیس اصلاحات اور تارکین وطن کے لیے آواز بلند کی، جس نے انہیں نوجوانوں اور ترقی پسند حلقوں میں بے حد مقبول بنا دیا۔
زوہران ممدانی کے مؤقف خاص طور پر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف سخت موقف نے انہیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھ میں کھٹکنے والی شخصیت بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف زوہران کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں کھلے عام گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر زوہران ممدانی ICE کی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ اس دھمکی کے جواب میں زوہران نے سوشل میڈیا پر دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا:
"صدر ٹرمپ نے مجھے اس لیے گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ میں قانون توڑ رہا ہوں؟ نہیں! بلکہ اس لیے کہ میں ICE کو ہمارے شہر میں دہشت پھیلانے سے روکنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ ان کے بیانات نہ صرف ہماری جمہوریت پر حملہ ہیں بلکہ وہ ہر نیویارکر کے لیے انتباہ ہیں کہ اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کو خاموش کروانے آئیں گے۔ ہم اس دھونس کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔"
زوہران کا یہ جرات مندانہ جواب محض ایک فرد کی طرف سے نہیں بلکہ نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر کی اجتماعی سوچ اور مزاحمت کی عکاسی ہے، جہاں لاکھوں تارکین وطن رہتے ہیں اور جہاں خوف کی سیاست کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔
زوہران ممدانی آج صرف نیویارک کے ایک حلقے کے نمائندے نہیں، بلکہ وہ ان نوجوان ترقی پسند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کی انتہا پسند، نسل پرست اور امیگریشن مخالف سیاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کا تعلق بائیں بازو کی اس نئی نسل سے ہے جو سرمایہ دارانہ جبر، نسل پرستی اور خوف کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔
موجودہ امریکہ جہاں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں واضح طور پر امتیازی ہیں، وہاں زوہران ممدانی جیسے نوجوان سیاستدان ایک امید کی کرن ہیں، جو نہ صرف مظلوموں کی آواز بنے ہیں بلکہ جمہوریت، مساوات اور انسان دوستی کی جنگ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔
|
|