عمران خان ہمارے ملک کے ایک
ابھرتے ہوئے سیاست دان ہیں۔ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں خاصی شہرت حاصل
کرلی ہے جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصہ میں آتی ہے۔ اس کا سبب ان کے وہ تلخ
اور تیکھے بیانات ہیں جو انہوں نے امریکا کے خلاف ‘ ڈرون حملوں کے خلاف اور
حکومت کی امریکا نوازپالیسیوں کے خلاف دیے یا پھر وہ دھرنے ‘ریلیاں اور
جلوس ہیںجو انہوں نے امریکی دہشت گردیوں اورحکم رانوں کی مجرمانہ خاموشی پر
احتجاج کرنے کے لیے منعقد کیے۔ خصوصاً پشاور میں دیے جانے والے دھرنے نے ان
کے قد کاٹھ میں کافی اضافہ کیا تھا۔ اگر وہ یک سوئی کے ساتھ اپنے اسی لگے
بندھے راستہ پر چلتے رہتے تو مستقبل کے مقبول ترین لیڈر بن سکتے تھے‘ مگر
اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اپنا راستہ تبدیل کررہے ہیں۔ جو زبان وہ
پہلے امریکا اور اس کے گماشتوں کے لیے استعمال کرتے تھے ‘ اب وہی زبان
دائیں بازو کی اپنی ہی رفیق سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال کرنا شروع کردی
ہے۔
شاید وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ اگر ان کا خیال یہ ہے کہ بعض
دھرنوں اورریلیوں میں ان کو اپنے سامنے انسانوں کا جو اجتماع نظر آیاتھا ‘
وہ ان کی عقیدت ومحبت اور انہی کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے جمع تھا تو ان
کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد اس انتہائی گم راہ کن خیال کو اپنے دماغ
سے باہر نکال پھینکیں۔ اپنے مقرب اور نوازے گئے صحافیوں کی طرف سے دکھائے
گئے ”سبز باغات“ کے دھوکے میں نہ رہیں۔بات صرف اتنی ہے کہ امریکا اور اس کے
حواریوں کے خلاف نفرت کا جو لاوا عوام کے سینوں میں پک کر کھول رہا تھا‘ اس
کو باضابطہ نکاسی کے لیے کسی لیڈر کی سرپرستی کی ضرورت تھی۔ اگر یہ ضرورت
کوئی اور مقبول یا نیم مقبول سیاسی جماعت بھی پورا کردیتی تو عوام کے سینوں
میں ابلنے والے لاوے کی ”ملائی“ اسی کے حصے میں آجاتی ا ور شاید تحریکِ
انصاف کے اجتماعات سے بھی بڑے اجتماعات منعقد ہوجاتے۔ اس کا سبب اس سیاسی
جماعت کی مقبولیت نہ ہوتی ‘بلکہ وہ مقصد اس کا اصل سبب قرار پاتا جس کے نام
پر انہیں جمع کیا جاتا۔ ہم تو عمران خان کے سیاسی تدبر کو داد دینے کا سوچ
رہے تھے کہ بہت ہی مناسب موقع پر انہوں نے بڑے برجستہ انداز میں عوام کی
ایک اہم ضرورت کو پورا کیا اور ان کی ہم دردیوں کے مستحق بن گئے۔ اگر وہ
اپنے اسی لگے بندھے راستہ پر چلتے رہتے تو آئندہ انتخابات کے دوران صفِ اول
کے سیاست دانوں کے درمیان نمایاں جگہ حاصل کرسکتے تھے‘ مگر اب لگتا ہے کہ
انہیں ”ملائی“ کھانے کی بہت جلدی ہے اور وہ سیاست کے صبر آزما مراحل سے
واقف نہیں۔ تبھی تو مقبولیت کے زعم میں اپنا اصل ہدف تبدیل کرکے اپنی رفیق
اور حریف سیاسی جماعتوں کے خلاف ہی بیان بازی کی مہارت آزما نے میں لگ گئے
ہیں۔ اپنی سابقہ مقبولیت کو بچانے اور اسے مزید اَپ گریڈ کرنے کے لیے انہیں
بہت زیادہ محنت و ریاضت اور پہلے سے زیادہ یک سوئی کی ضرورت ہے‘ ورنہ وہ
اپنا رہا سہا بھرم بھی کھو بیٹھیں گے۔
پاکستانی عوام کو کسی ایسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہے جو پہلے سے
موجود نظریاتی جماعتوں کے لیے توڑ پھوڑ کا باعث بنے اور ان کے حلقہ ووٹران
کی قوت کو منتشر کرے۔ ہاں اگر تحریکِ انصاف سیکولر جماعتوں کی قوت توڑ کر
اور ان کا شیرازہ بکھیر کر نظریاتی جماعتوں کی قوت میں اضافہ کا باث بن سکے
تو اسے سو بار مرحبا !مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرے۔
تختِ لاہور کو ”تختہ ” بنانے کی بجائے‘ پھلتی پھولتی ”میڈ اِن امریکا “سول
سوسائٹی کے تعاقب‘ نام نہاد این جی اوز کی بڑھتی ہوئی لادینی سرگرمیوں کی
سرکوبی اور سیکولر لابیوں کا دم نکالنے کے لیے اپنی انرجی صرف کرے۔ پاکستان
کو اپنی تقدیر بدلنے کی لیے کسی مہاتیر محمد او ررجب طیب اردگان کی ضرورت
ہے اور وہ یقینا دوٹانگوں اور انسانی شکل والا کوئی انسان ہی ہوگا‘ مگر اس
کے لیے جو بلند قامت اوصاف درکار ہیں ‘ وہ عمران خان میں مجتمع نظر نہیں
آتے۔ گذشتہ کئی دنوں سے ان کے آنے والے ہر نئے بیان کے بعد یہ احساس بڑھ
جاتاہے کہ شاید ان کا نصب العین اِس ملک کی تقدیر بدلنا نہیں ‘ انتخابی
سیاست سے ملنے والی ”ملائی “ کھاناہے۔
تحریکِ انصاف کے پاس اپنے ا خلا ص کے ثبوت کے طور پر لے دے کے‘ صرف اپنے
قائد کے بیانات ہی رہ جاتے ہیں۔ سوال پید ا ہوتا ہے کہ حکومت سے باہر رہ
کرتو ایسے بیانات سب ہی دیتے ہیں ۔ عمران خان کا امتیاز کیا ہے ؟وہ بھی جب
پرویز مشرف کے مقرب اور زیرِنگیں تھے تو کبھی ان کی یہ گونج دار آواز سنائی
نہیں دی تھی۔ ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنے کا حق نہیں ‘ لیکن اگر وہ اپنے
اخلاص کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں تو اِس کا ثبوت مانگنا سب کا حق ہے۔ بغیر
آزمائے کسی کو صدق واخلاص کا سرٹیفیکیٹ کیسے دیا جاسکتا ہے؟ عمران خان کے
پاس وسائل کی کمی نہیں۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ پہلے اپنے مالی اور انسانی
وسائل اس ملک میں تعلیم ‘ صحت اور روزگار کے مواقع عام کرنے اور رفاہِ عامہ
کے شعبوں کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے استعمال کرتے‘ اس کے بعد اقتدار کے
برج خود بخود ان کے قدموں میں آکے ڈھیر ہوجاتے۔
آخر میں ایک اور امر جو خاص طور پر قابلِ ملاحظہ ہے‘ وہ یہ کہ دائیں باز و
کی جماعتوں کے ساتھ اکثریت ان لوگوں کی وابستہ ہے جو مذہب پسند اور نظریاتی
کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کو بھی اپنے ووٹران کی خوشنودی کے
لیے وقفہ وقفہ سے دین ‘ مذہب اور نظریہ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا
اظہار کرنا پڑتا ہے‘ مگر اِس تحریکِ انصاف پر ہمیں حیرت ہے کہ ڈرون کے خلاف
‘ وار آن ٹیرر کے خلاف ‘ امریکی غلامی کے خلاف اور ملک کے دیگر چھوٹے بڑے
مسائل کے خلاف ان کے سنہری بیانات و”اقدامات “ اپنی جگہ ‘ مگر اسلام اور
نظریہ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار اور سرگرم سیکولر لابیوں کے
خلاف ان کی طرف سے کوئی بے نام سا قدم اٹھانے کی بات بھی میڈیا پر کبھی
نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہے؟اگر عمران خان اپنے آپ کو دائیں بازو کی سب جماعتوں
کا ”امام“ سمجھتے ہیں تو انہیں اس کے آداب اور تقاضے بھی ملحوظ رکھنے
چاہییں۔وار آن ٹیرر کے حوالہ سے ان کا صائب اور جرات مندانہ موقف اپنی جگہ
قابلِ احترام ہے‘ لیکن یہ ایک الگ ایشو ہے۔ دائیں بازو کی جماعتوں میں شمار
ہونے کے لیے انہیں اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے سچے اور بے
لوث تعلق کا برملا اظہار کرنا ہوگا‘ ورنہ نظریاتی حلقوں کے ساتھ انہیں
زیادہ توقعات قائم نہیں کرنی چاہئیں۔ |