لیبیا سے شام تک

لیبیا کے مرد آہن کرنل قذافی لحد نشین ہوگئے۔ باغیوں نے اسے نمونہ عبرت بنادیا۔وہ لیبیا اور مسلمانوں کا خیر خواہ تھا وہ ڈکٹیٹر تھا یا رحم دل شہنشاہ وہ شہید ہے یا جہنمی سے قطع نظر ہمیں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ عمر بھر انکل سام کے خلاف آواز حر کی صدا دیتا رہا انٹر نیشنل دہشت گرد عالمی سامراج اور یورپی حکمرانوں کے ظلم و ستم سہتا رہا اور انکی استعماریت کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا۔ باغیوں نے لاش کی تذلیل کی اور پھر اسے سنگینوں کے سائے میں گمنام جگہ پر دفن کردیا گیا۔قذافی کی عظمت یا ڈکٹیٹرشپ کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔امریکہ مغربی گماشتے اسے کسی بیہودہ نام سے پکارتے رہیں دہشتگردی اور آمریت کے کوسنے دیتے رہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تاریخ کے فیصلے جذبات مفادات اور میڈیا وار کی زہر ناکی سے مبرا ہوا کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں امریکہ وحشی اور اسکی رکھیل ناٹو ایک کے بعد دوسرے استعمار مخالف مسلم حکمران کی شہہ رگیں کاٹ رہے ہیں۔ وسائل کے باوجود عرب مسلمانوں کی پے درپے شکستوں کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لازم ہوگا۔ اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ کی تیرہ سالہ مکی زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ وعظ و تبلیغ کے ساتھ ساتھ شمیر و سناں پر خصوصی توجہ دیا کرتے۔وہ مسلمانوں اور مجاہدین کوتیغ زنی اور تیر افگنی کے گرسکھانے میں مشتاق تھے۔آپﷺ اپنی 10 سالہ مکی حیات میں95 غزواہ دات و سرویات سے منسلک رہے یعنی ﷺایک سال میں دس معرکوں میں لڑتے اور لڑاتے رہے۔آپﷺ بیک وقت چیف اف ارمی سٹاف اور سپاہی بھی تھے۔عربی زبان میں شائع ہونے والی کتاب رفیق الحتوم میں تمام غزوادات کی تفاصیل موجود ہیں۔ شبلی نعمانی نے کہا تھا کہ وہ قوم ہمیشہ صورت شمشیر رہتی ہے جو ہر لمحہ اور ہر ان اپنے اعمال کا جائزہ لیتی رہتی ہے جو بدنصیب قوم احتساب کی طرف راغب نہیں ہوتی وہ دست قضا کا لقمہ اجل بن جاتی ہے۔عرب لوگ سنت نبوی کے محافظ اور پیروکار تھے۔وہ عرب جن پر قران فرقان نازل ہوا تھا۔عربوں کو شاعر مشرق نے مخاطب کیا تھا کہ اللہ آپکے صحراؤں بیابانوں اور گلستانوں کو تاابد قائم و دائم رکھے۔کیا آپکو معلوم ہے کہ قرآن پاک کی پہلی تلاوت کس نے کی تھی؟ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ پاک نے پہلی رمز کس قوم کو سکھائی تھی؟ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب سے مسلم حکمرانوں نے یہود و نصاری کی سازشوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے ایک طرف فسق و فجور لسانی و نسلی تضادات دینی گروہ بندی کو اپنی نس نس میں اتارا اور دوسری طرف مسلم بادشاہ تکبر غرور نخوت کے ائینہ دار بنے رہتے اور جب وہ لوٹ مار ہوس اقتدار زر پرستی اور کرپشن کے عالمی چمپین بنے تب سے انکی زلت خواری شرمناکی اور تنزلی کا برق رفتار طوفان کڑکنے لگا وہ اللہ پاک قرآن کریم جہاد اورعلم و حکمت کی بجائے دنیاوی الائشوں کے مسیحا ٹھرے تب سے آج تک وہ امریکی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عرب خطے میں جو سراٹھاتا ہے اسکا سرقلم کردیا جاتا ہے۔عرب دنیا میں صدام اور قذافی کا جو حشر ہوا وہی حشر کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے۔نوم چومسکی نے لکھا تھا مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں ڈبکیاں لگانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ امریکہ باری باری تمام مسلم مہاراجوں کو نکیل ڈالے گا۔ اب یہاں دوفکر انگیز سوال عقل و شعور کے دروازوں پر دستک د ینے لگتے ہیں کیا شام امریکہ کا اگلا ٹارگٹ ہوگا؟ قذافی کی ہلاکت کے بعدلیبیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ مغربی دانشور اور زرائع ابلاغ ان سوالات کی وضاحت اور تعریف کرتے ہیں جو حقیقت کو نوشتہ دیوار کی طرح عیاں کردیتی ہے۔مراکش کا نیوز پیپر الشروق لکھتا ہے کہ لیبیائی اکثریت ہواس باختہ ہے کہ ملک و قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟گو باغی پورے لیبیا کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں مگر 100 فیصد شہری نئی حکومت سے متفق نہیں۔nbc لااینجلس نے تجزیاتی رپورٹ میں لیبیا کے مستقبل کا نقشہ یوں ڈرافٹ کیا۔ باغیوں کی آمد اور اعلان آزادی کے باوجود عوام دو حصوں میں منقسم ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ قبائل کسی بھی وقت آپس میں باہم دست و فریبان ہوسکتے ہیں۔مغربی تجزیہ نگار جولی بریٹن کا کہنا ہے کہ ملک کو ایسی متفقہ جمہوریت اور آئین کی ضروت ہو جو مختلف الخیال جماعتوں اور قبائل سمیت قوم کو متحد رکھ سکے۔زمبابوے کے اخبار ٹائمز لائیو تجزیہ کرتا ہے کہ مرد آہن کی ہلاکت سے وائٹ ہاؤس کی امریکن وار ڈاکٹرائن نامی کامیاب پالیسی سامنے آئی ہے۔ANTI WAR میگزین کے ایڈیٹر جیس ڈیز کہ قذافی کی موت کے بعد اگلا ٹارگٹ بشار الاسد شامی صدر اور یمن کے امر صالح ہیں جنہیں امریکہ اور یو این او وارننگ دے چکی ہے کہ وہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کرے۔ڈیس کے مطابق شام کے متعلق امریکی صدر اوبامہ کا لب و لہجہ بدل رہا ہے۔امریکہ اور شام نے ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک بدر کردیا۔ اوبامہ نے 3 ہزار سے زائد شامیوں کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پردمشق کو آنکھیں دکھائیں۔ عرب خطے میں تبدیلی کی خون آشام لہریں کہاں تک لرزہ براندام کرسکتی ہیں؟cia کے تجربہ کار سفارت کار بروس ریڈلی کا استدلال ہے کہ شام کے علاوہ الجزائر یمن سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے لئے امریکی پالیسی میکرز نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔بروس کہتے ہیں کہ مستقبل یا دوسرے راونڈ میں تبدیلی کی طوفانی لہریں زیادہ کٹھن اور دشوار ہونگی۔ ڈیلی میل کے مطابق لیبیا میں امن کا قیام موہوم امید ہے۔عرب لیگ کے سرخیل ال نبیل کہتے ہیں کہ انتقامی رویوں اور معاندانہ کاروائیوں سے امن و امان اور باہمی مفاہمت کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔برطانوی ماہر امور خارجہ میکس ہیسٹنگ کا کہنا ہے کہ ابھی تک قذافی کا کوئی نعم البدل نہیں۔یوں قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ اور ناٹو کی وحشیانہ درندگی کا اگلا شکار شام ہے۔ عرب خطے اور مسلم حکمرانوں کو معروضی حالات اور واقعات کے تناظر میں دو ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے۔ امت مسلمہ ایک طرف علم و حکمت اور قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کے ساتھ ساتھ اپنی فوجی قوت کو مذید مستحکم کرنا ہوگا. دفاعی قوت حضرت محمدﷺ کی جنگی پالیسیوں کے عین مطابق اپ ٹو ڈیٹ کیا جائے۔ جہاں تک شام پر اگلی یلغار کی صدائے بازگشت سنی جارہی ہے تو ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ناٹو کی قیامت برسانے والی فضائی قوت کے سامنے شام سینہ تان کر زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہوسکتا۔oic کے ہنگامی اجلاس میںﷺ کے غزوات رسول کو مدنظر رکھ کراتحاد و یکجہتی کی متفقہ قراداد سے امریکہ اور ناٹو کو شام پر شب خون مارنے سے روک دیا جائے۔یاد رہے کہ رب اور اسکے محبوب پیغمبر کی آفاقی تعلیمات سے رجوع کئے بغیر نہ تو ہماری کوئی کل درست بن سکتی ہے اور نہ ہی امت کی تنزل پزیری کے بہتے سمندر کو روکنا آسان ہوگا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.