دجال کی وقت سے چھیڑ چھاڑ

عنوان: وقت سے چھیڑ چھاڑ — دجال، سلیمان علیہ السلام، اور آئن اسٹائن کی نظریہِ اضافیت کی روشنی میں


---

تعارف:

وقت — ایک ایسی حقیقت جو ہر انسان کے وجود کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، لیکن قرآن، حدیث اور سائنسی نظریات اس کے غیرمعمولی پہلوؤں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم تین اہم حوالوں کو جوڑ کر ایک حیرت انگیز تصور کی طرف بڑھتے ہیں:

1. دجال کے وقت کی چالاکی (چال)


2. حضرت سلیمانؑ کے دربار میں وقت کی کیفیت


3. آئن اسٹائن کی نظریہ اضافیت (Theory of Relativity)




---

1. دجال اور وقت کی چالاکی:

صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق دجال جب ظاہر ہوگا تو اس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا دن ایک مہینے، تیسرا دن ایک ہفتے، اور باقی 37 دن عام دنوں کی مانند ہوں گے۔ صحابہ نے سوال کیا کہ اس دن میں نماز کیسے پڑھی جائے گی؟ نبی ﷺ نے فرمایا: "اوقات کا اندازہ کر کے۔"

یہ روایت یہ ظاہر کرتی ہے کہ دجال کسی طرح وقت کی perception یا بہاؤ کو manipulate کرے گا — یہ کوئی عام جادو نہیں بلکہ ممکنہ طور پر ایک advanced تکنیکی یا کونیاتی (cosmic) چالاکی ہوگی، جس میں وقت کو کھینچا یا سکیڑا جائے گا (Time Dilation or Compression)۔

یہاں ایک بات انتہائی اہم ہے کہ:

> "اگر دجال واقعی زمین کی گردش کو روک دے، یا سورج کی رفتار کو کم کرے، تو پورا نظامِ شمسی عدم توازن کا شکار ہو جائے گا۔"



زمین کا سورج کے گرد گردش کرنا، سورج کا کہکشاں میں اپنی رفتار سے گھومنا — یہ سب کششِ ثقل (gravity) اور توازن پر مبنی ہیں۔ اگر زمین کی رفتار رُک جائے یا سورج کا طلوع و غروب رک جائے تو:

زمین کا درجہ حرارت یا تو شدید گرم یا شدید سرد ہو جائے گا

کششِ ثقل کے توازن بگڑ جائیں گے

گلیکسی میں مقناطیسی اور فزیکل بگاڑ آ جائے گا

زندگی کا نظام مکمل تباہ ہو جائے گا


لہٰذا، یہ کہنا زیادہ معقول ہے کہ دجال نظامِ فلکی میں تبدیلی نہیں کرے گا، بلکہ انسانی شعور، perception یا time field کو manipulate کرے گا۔ یعنی وقت بدلے گا، حقیقت نہیں — اور یہ ایک فریب ہوگا۔


---

2. حضرت سلیمانؑ کی وفات اور وقت کی پراسراریت:

سورہ سبا (34:14) میں اللہ فرماتا ہے کہ:

> "پھر جب ہم نے ان پر موت کا فیصلہ کیا، تو کسی کو ان کی موت کا علم نہ ہوا، سوائے زمین کے ایک کیڑے کے جس نے ان کی لاٹھی کھا ڈالی، پھر جب وہ گرے، تب جنّات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کی مشقت میں نہ پڑتے۔"



یہ واقعہ صرف ایک معجزہ نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ایک غیر معمولی چالاکی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک نہایت مصروف بادشاہ تھے:

ان کے دربار میں سینکڑوں خدام، وزراء، فوجی، جنّات، حیوانات اور انسان شامل تھے

ان کی سینکڑوں بیویاں اور اولادیں تھیں

وہ روزمرہ معاملات میں براہِ راست شریک ہوتے تھے


اگر وہ چند گھڑیاں بھی محل یا دربار سے غائب ہوتے، تو لازماً کسی کو شبہ ہوتا، سوال اٹھتے، تحقیقات ہوتیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کئی دن بلکہ ممکنہ طور پر ہفتے یا مہینے گزر گئے، اور کسی کو ان کی وفات کا علم نہ ہوا۔

یہ صرف اسی صورت ممکن ہے اگر:

1. وقت کو کسی محدود دائرے میں روک دیا گیا ہو (Time Suspension)


2. دربار کے تمام افراد کی شعوری perception کو محدود یا manipulate کر دیا گیا ہو



بعض روایات یا نظریات میں یہ کہا جاتا ہے کہ شاید یہ کسی جنّ کی طرف سے کیا گیا ہو، لیکن یہ مفروضہ عقلی طور پر کمزور ہے کیونکہ جنّات کو تو خود اس فریب میں رکھا گیا تھا — وہ حضرت سلیمانؑ کے مرنے کے بعد بھی مشقت سے کام کرتے رہے۔ کوئی مخلوق اپنے خلاف ایسی چال نہیں چلتی۔

لہٰذا زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ یہ وقتی چالاکی یا تو اللہ کی طرف سے بطور آزمائش تھی، یا پھر کسی اور مخلوق — ممکنہ طور پر کسی انسان — نے ایسا نظام ترتیب دیا، جو جنّات کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اور جو اس کا دعویٰ کرتا ہے وہ باطل ہے۔


---

مزید قرآنی اور حدیثی دلائل:

1. سورہ کہف – اصحابِ کہف:



> "اور وہ اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے، اور (مزید) نو سال بھی۔" (الکہف 18:25)



2. سورہ البقرہ – حضرت عزیرؑ کا واقعہ:



> "اللہ نے اس شخص کو جو ایک بستی کے پاس سے گزرا، اور کہا: اللہ اسے موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اسے سو سال کے لیے موت دی، پھر زندہ کیا۔" (البقرہ 2:259)



3. معراج کا واقعہ:



> نبی کریم ﷺ کا سفر معراج جسم و روح سمیت ہوا اور واپسی اسی رات میں — جب کہ سفر زمان و مکان سے باہر تھا



یہ تمام واقعات وقت کے bending، suspension یا relative بہاؤ کو ثابت کرتے ہیں — کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے کہ وہ وقت کو کھینچ دے، روک دے، یا پلک جھپکتے میں مکمل کائنات کا سفر کروا دے۔


---

3. آئن اسٹائن کی نظریہ اضافیت (Theory of Relativity):

آئن اسٹائن کے مطابق:

> "وقت مطلق (absolute) نہیں ہے، بلکہ مشاہدہ کرنے والے کے رفتار اور مقام کے مطابق مختلف محسوس ہوتا ہے۔"



Time Dilation:

اگر کوئی انسان روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرے تو اس کے لیے وقت سست ہو جاتا ہے، جب کہ زمین پر وقت تیزی سے گزرتا ہے


Gravitational Time Dilation:

زیادہ گریویٹی والے مقام پر وقت آہستہ گزرتا ہے


یہ نظریہ قرآنی واقعات کے بالکل قریب آتا ہے:

اصحابِ کہف 309 سال سوئے رہے مگر انہیں کچھ محسوس نہ ہوا

حضرت عزیرؑ 100 سال بعد اٹھے، کھانا ویسا ہی تھا مگر گدھا گل چکا تھا



---

خطرہ: وقت کی چالاکی سے فائدہ اٹھانا

اگر وقت ایک ریلیٹو (نسبتی) چیز ہے، تو کوئی مخلوق یا طاقت — جیسے دجال — اس کا غلط استعمال کر کے:

لوگوں کو فریب دے سکتی ہے

لوگوں کے ذہنوں میں مختلف وقت کی تصویر ڈال سکتی ہے

خود کو خدا یا نجات دہندہ ظاہر کر سکتی ہے


اسی لیے نبی ﷺ نے دجال کے فتنے سے اتنا ڈرایا، کیونکہ وہ صرف نظر کا دھوکہ نہیں، بلکہ وقت اور شعور کا دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔


---

نتیجہ:

قرآن، سنت اور سائنسی نظریات جب آپس میں جڑتے ہیں تو وقت کی حقیقت مزید پیچیدہ اور حیران کن ہو جاتی ہے۔ دجال کا وقت سے چھیڑ چھاڑ ہو، یا حضرت سلیمانؑ کے دربار کا 'فروزن لمحہ' — یہ سب ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ:

> "وقت ایک مخلوق ہے، اور کوئی مخلوق جب اس مخلوق کو کنٹرول کرنے لگے، تو وہ فتنہ بن جاتی ہے۔"



ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا کہ وقت کے ہر پہلو کو صرف گھڑی کی سوئیوں سے نہ ناپیں، بلکہ ایمان، عقل اور قرآن کے پیمانوں سے بھی سمجھیں۔
از۔ محمد عمر

 

Umar Zaman
About the Author: Umar Zaman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.