عبدیت کا اقرار اور ربانی استعانت

”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔“ (سورۃ الفاتحہ: 4)
یہ آیت بندگی کی وہ بلند ترین چوٹی ہے جہاں انسان اپنی تمام غرور آمیز نسبتوں کو جھٹک کر خالص رب کے سامنے جھکتا ہے۔ یہاں نہ کسی ذات کا سہارا ہے، نہ کسی رتبے کا غرور، نہ کسی عمل کا فخر۔ یہ ایک بندہ ہے اور اُس کا رب، اور دونوں کے درمیان ایک تعلق ہے جو الفاظ سے ماورا، مگر احساسات سے لبریز ہے۔
”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“، یہ الفاظ اُس مکمل انقیاد کا اعلان ہیں جو انسان کو کسی غیر کے سامنے جھکنے سے روکتے ہیں۔ عبادت یہاں صرف ظاہری سجدے یا دعائیں نہیں، بلکہ ہر وہ کیفیت، ہر وہ جذبہ، ہر وہ عمل شامل ہے جس میں دل کا میلان رب کی طرف ہو، جس میں اطاعت ہو، اخلاص ہو، خشوع ہو، اور بندگی کا شعور ہو۔ یہ آیت انسان کو اپنی اصل پہچان یاد دلاتی ہے۔ انسان اکثر دنیا کے رشتوں، عہدوں، مشغلوں، اور تمناؤں میں گم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ خود کو دوسروں کا محتاج، مرعوب یا غلام بنا لیتا ہے۔ مگر جب وہ رب کے حضور کہتا ہے: ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ تو وہ دراصل تمام جھوٹے معبودوں، تمام باطل سہاروں اور تمام وقتی طاقتوں کا انکار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! میری پیشانی صرف تیرے آگے جھکتی ہے، میرے دل کی ڈور صرف تیرے ہاتھ میں ہے، اور میری زندگی کا محور صرف تیرا حکم ہے۔ جب بندہ کہتا ہے: ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“، تو وہ اپنے نفس کو، اپنی خواہشات کو، دنیا کے جھوٹے معبودوں کو، اور اپنی خود پرستی کو رد کر رہا ہوتا ہے۔ یہ جملہ ایک داخلی انقلاب ہے، دل کا جھکنا، روح کا پگھلنا، اور بندگی کا سچ بولنا۔ یہاں ”عبادت“ صرف سجدے، نماز، روزے کا نام نہیں؟ یہاں ہر سانس، ہر نیت، ہر عمل رب کی رضا سے مشروط ہے۔ یہ زندگی کا وہ رخ ہے جہاں انسان ہر عمل سے پہلے خود سے پوچھتا ہے: کیا یہ رب کی عبادت کے زمرے میں آتا ہے؟ اسی لیے یہ آیت نہ صرف ایک روحانی احساس ہے بلکہ عملی ضابطۂ حیات بھی ہے۔ یہ کہتی ہے: اپنی تجارت کرو مگر بندگی کے اصولوں کے ساتھ، رشتہ نبھاؤ مگر رب کی رضا کو سامنے رکھ کر، علم حاصل کرو مگر تکبر کے بغیر، محبت کرو مگر رب کی حدود کے اندر۔ یہ عبادت ہر شعبۂ زندگی میں رب کی رضا کو داخل کر دینے کا نام ہے۔
پھر وہ آگے بڑھتا ہے، ”اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔“ یہ صرف ایک دعائیہ جملہ نہیں، بلکہ مکمل فلسفۂ حیات ہے۔ انسان کو جب یہ علم ہو جائے کہ حقیقی مدد صرف ایک ہستی سے ہی ممکن ہے، تو اُس کے اندر سے خوف، محتاجی، اور غیر اللہ سے وابستہ امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ دعا بندے کے دل میں یہ یقین بٹھاتی ہے کہ مدد صرف وہی دے سکتا ہے جو ہر حال پر قادر ہے، جو دلوں کے حال جانتا ہے، جو بغیر وساطت کے سن لیتا ہے، اور جو ہر ضرورت کو ضرورت سے پہلے جانتا ہے۔ جب بندہ کہتا ہے: ”اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں“، تو وہ اپنی کمزوری کو تسلیم کرتا ہے، مگر ساتھ ہی وہ کمزوری کو پچھاڑنے کا راز بھی جان لیتا ہے، کہ طاقت اُس کے سجدے میں نہیں، بلکہ سجدے والے رب کی مدد میں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ غرور سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ محنت اپنی جگہ، علم اپنی جگہ، تدبیر اپنی جگہ، مگر انجام صرف رب کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں جملوں کے درمیان ایک عجیب سا ربط ہے: عبادت بندے کی طرف سے خالص ہو، تو رب کی مدد بھی اُس پر خالص نازل ہوتی ہے۔ یعنی عبادت اخلاص کے ساتھ ہو، تو استعانت فضل کے ساتھ آتی ہے۔ بندہ جتنا عاجز ہوتا ہے، رب اتنا ہی قریب ہو جاتا ہے۔ بندہ جتنا ”خود سے خالی“ ہوتا ہے، رب اتنا ”اپنی مدد سے بھرتا“ ہے۔ یہ استعانت صرف دعا کے وقت نہیں، بلکہ ہر وقت کا حال ہے۔ وہ دل جو رب سے مدد مانگنے کا عادی ہو جائے، وہ کسی مخلوق کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ اُسے ضرورت ہوتی ہے، مگر فریاد صرف ایک در سے کرتا ہے۔ اُسے دکھ ہوتا ہے، مگر شکوہ صرف ایک ذات سے کرتا ہے۔ اُسے کمی محسوس ہوتی ہے، مگر امید صرف ایک دروازے سے وابستہ رکھتا ہے۔ یہ آیت روحانی تربیت کا کمال مرکز ہے۔ یہاں عبد رب کے سامنے تسلیم و رضا کا پرچم بلند کرتا ہے اور اپنی تمام احتیاج صرف اُس رب کے سامنے رکھتا ہے جو بغیر کسی وسیلے کے سنتا ہے، اور بغیر کسی فہمائش کے عطا کرتا ہے۔ یہ آیت صرف بندے اور رب کے درمیان ایک عہد کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل تعلق کا اعلان ہے، ایک دائمی رشتہ جو نہ ٹوٹتا ہے، نہ ماند پڑتا ہے، اگر بندہ اس کی حقیقت کو سمجھ لے۔ یہی کیفیت عبد کو ”عزت کی بندگی“ سکھاتی ہے، کہ وہ بندہ ہو کر بھی آزاد ہے، کیوں کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ وہ مانگنے والا ہو کر بھی باوقار ہے، کیونکہ وہ صرف اللہ سے مانگتا ہے۔ وہ محتاج ہو کر بھی بے نیاز ہے، کیونکہ اس کا سہارا خود بے نیاز ہے۔
یہ آیت ایک جماعتی انداز بھی رکھتی ہے، ”ہم“ تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ”ہم“ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ اس آیت میں سب سے بڑا لفظ ”ہم“ ہے۔ بندے کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسلام ”میں“ سے ”ہم“ تک کا سفر ہے۔ یہ اجتماعیت ہمیں سکھاتی ہے کہ بندگی کا سفر تنہا نہیں، یہ قافلہ ہے؛ امت کی صورت میں اللہ کی طرف بڑھنے کا عمل ہے۔ یہ انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ صرف اپنی نجات نہ مانگے، بلکہ سب کے لیے، پوری انسانیت کے لیے، امت کے لیے دعا کرے، مدد مانگے، اور عبادت کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو بندے کو عاجزی کے ساتھ طاقتور بناتا ہے، کہ وہ ظاہری طور پر تنہا ہو کر بھی رب کی نصرت سے ہر طاقت کے مقابل مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اُسے دنیا سے منہ موڑ کر دنیا میں بہترین کردار ادا کرنے والا بناتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا سرمایہ عبادت ہے، اور اُس کی پشت پر اللہ کی مدد ہے۔ یہ آیت ہمیں جینا سکھاتی ہے، ایک ایسا جینا جس میں زندگی کا ہر پہلو عبادت بن جائے، اور ہر کمی پر رب کی مدد کا دروازہ کھلا رہے۔ یہ ہمیں اللہ سے جوڑتی ہے اور غیراللہ سے توڑتی ہے۔ یہ ہمیں خود پر بھروسا ختم کرنے کا نہیں، بلکہ رب پر مکمل توکل کرنے کا سبق دیتی ہے۔ اور یہی وہ آیت ہے جو بندے کے دل میں رب کا اطمینان اتارتی ہے۔ ایسا اطمینان جو نہ دولت سے ملتا ہے، نہ لوگوں کی تعریف سے، نہ طاقت سے، بلکہ صرف اس احساس سے ملتا ہے کہ ”میں تیرا بندہ ہوں، اور تُو میرا رب ہے۔ میں عبادت بھی تیری ہی کرتا ہوں، اور مدد بھی تجھ ہی سے مانگتا ہوں۔“

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 45 Articles with 15462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.