کرسٹفر کولمبس کے ہاتھوں امریکہ
کی دریافت تاریخ کی سب سے بڑی ناکامیوںٕ میں سے ایک تھی۔ کولمبس کا مقصد
ایک نیا بر اعظم ڈھونڈنا تو کبھی تھا ہی نہیںٕ۔ وہ تو یورپ سے ایشیا کے سفر
پر نکلا تھا۔ مگر وہ بھٹک کر ایک ایسے بر اعظم میں جانکلا جس پر آج دنیا کی
سوپر طاقت قائم ہے۔
امریکہ کی دریافت کے بعد بھی یورپی بحری طاقتوں نے اپنا وہ مقصد نہیں
بھلایا، جس کے حصول کے لیے کولمبس کو اس کے تاریخی سفر پر روانہ کیا گیا
تھا۔ یعنی امریکہ کی دریافت کے بعد ایشیاء تک پہنچنے کی کوشش نے ایک نئی
شکل اختیار کر لی۔ جسے شمال مغربی راستے کی تلاش کا نام دیا گیا۔
اس تلاش نے یورپی باشندوں کو شاید پہلی بار ایک نئی ثقافت سے متعارف کرایا۔
جس کا تعلق آرکٹک میں قطب شمالی سے قریب آباد ہونے والے انوپیق قبیلے سے
تھا،جنہیں انگریزوں نے اسکیموز کا نام دیا۔ خیال رہے کہ یہ لفظ توہین آمیز
بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان قبائلیوں کی اپنی زبان میں اس لفظ کے معنی تھے
برفانی جوتے بنانے والا۔ لیکن امریکہ میں آباد دوسرے قبائل کی زبان میں اس
لفظ کے معنیٰ ہیں کچا گوشت کھانے والے لوگ۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آرکٹک
میں آبادقوم کے لیے وہی نام استعمال کی جائے ، جسے خود انہوں نے اپنے لیے
چناہے ، یعنی انوپیق Inupiaq یا انویٹ Innuit ۔
جب میں نے اس سفر کی تیاری شروع کی تو میرے لیے چند چیزیں پریشانی کا باعث
تھیں۔ وہاں بہت کم لوگ جا چکے تھے اس وجہ سے علاقے کے بارے میں معلومات
اکھٹی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ان کے بارے میں شائع ہونے والی کتابوں
اور مضامین سے جو چیزیں میرے سامنے آئیں وہ یہ تھیں۔
1۔ سردی کی شدت سے شیشے کا چٹخ جانا
یہ چیز ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا تھی ، کیونکہ ہمارے زیر استعمال
کیمرے ، ان کے لینز اور لائٹ فلٹر وغیرہ اتنے کم درجہ حرارت کے لیے نہیں
بنائے گئے تھے۔ نہ چٹخنے کی صورت میںٕ بھی ان میں نمی جمع ہو سکتی تھی یعنی
کسی بھی موقع پر اگر کیمروں نے اپنا کام چھوڑ دیا تو اتنا طویل اور مشکل
سفر بیکار ہو سکتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہی وہ زمینی حقائق تھے جن کے پیش نظر ہالی وڈ کی مشہور
ڈراونی فلم Thirty Days of Night ، جو اسی علاقے کی کہانی سناتی ہے، مگر
اسے وہاں فلمایا نہیں گیا۔ خون پینے والے Vampiresکی یہ داستان کی فلم بندی
الاسکا کے دوسرے علاقوں اور نیوزی لینڈ میں کی گئی تھی۔
2۔ برفانی ریچھ کی موجودگی
آرکٹک کاسفر کرنے والے تقریباً سبھی افراد نے ان کی نشان دہی کی ہے۔ پوائنٹ
بیرو اس علاقے میں واقع تھا جہاں برفانی ریچھ پائے جاتے ہیں ۔ برفانی ریچھ
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دس فٹ اونچا اور دو ہزار دو سو پاونڈ کے
جانور کو شکار کر کے کھاتا ہے اور وہ انسانوں کے لیے خطر ناک ثابت ہو سکتا
ہے۔ ہمارے لیے ایک اور مشکل ہ تھی کہ برفانی ریچھ کا شمار ان جانوروں میں
کیا جاتا ہے جس کی نسل کو مٹنے کا خطرہ درپیش ہے ۔ چنانچہ اس وجہ سے اسے
مارنا قانون کے خلاف تھا۔ دوسرے لفظوں میں اگر دوران سفر وہ آپ پر حملہ
کردے تو آپ اس پر گولی نہیں چلاسکتے۔ ماسوائے چند بہت مخصوص حالات میں اور
وہ بھی تب جب اسے بھگانے کے لیے ہوا میں فائر کیے جاچکے ہوں۔
ہمیں اس سلسلے میں ایک مشہور واقعہ سننے کو ملا کہ کہ ایک فوٹو گرافر
برفانی ریچھ کی تصویریں کھینچنے کی مہم پر نکلا۔ ایک مقام پر ایک برفانی
ریچھ نے اس پر حملہ کردیا اور خود کو بچانے کے لیے اسے ریچھ پر گولی چلانی
پڑی۔ جب یہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو جج نے فیصلہ برفانی ریچھ کے حق میں
دیا۔ فوٹو گرافر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلای
تھی تو جج نے کہا کہ وہ برفانی ریچوں کا علاقہ ہے اور فوٹوگرافر کی وہاں
موجودگی مداخلت کے زمرے میں آتی ہے۔ عدالت نے فوٹوگرافر پر بھاری جرمانہ
عائد کیا۔
مجھے ذاتی حیثیت میں اس واقعہ کے شواہد حاصل نہیں ملے ۔لیکن جب میں نے
آرکٹک کےقبائلیوں سے اس کا ذکر کیا انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ دلچسپ بات یہ
ہے کہ برفانی ریچھوں سے متعلق قانون کا اطلاق انوپیق قبیلے پر نہیں ہوتا ۔
کیونکہ وہ اس علاقے میں امریکہ کے قیام سے پہلے سے رہے ہیں جس کے باعث
انہیں برفانی ریچھ کے شکار کی بھی اجازت ہے۔ مگر ان کے اپنے روایتی قوانین
ایسے کارروائیوں سے روکتے ہیں ، اسی لیے وہاں برفانی ریچھ کی نسل ابھی تک
موجود ہے۔
4۔ دستانوں اور جیکٹوں کے باوجود ہاتھ پاؤں کا فوراً منجمد ہوجانا
اس پریشانی سے بچنے کے لیے جوتوں اور دستانوں میں گرم کیمیکل رکھنا ضروری
تھا۔ ان تمام چیزوں کی موجودگی میں کیمرے اور فوٹوگرافی کا کام خاصا مشکل
ہوجاتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی سے ریاست واشنگٹن تک کا طیارے کا سفر ہوائی جہاز کے عام سفر
سے مختلف نہ تھا۔ مگر جب جہاز نے ریاست الاسکا کے سب سے بڑے شہر اینکریج پر
اترنا شروع کیا تو ہمیں کھڑکی سے باہر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کوئی عام
جگہ نہیں ہے۔ دریا جم چکے تھے اور ان میں برف کے ٹکڑے بہتے ہوئے دکھائی دے
رہے تھے ۔ یہ یاد رہے کہ اس وقت ہم آرکٹک سرکل کے قریب بھی نہیں تھے ۔
اینکریج سے ہم ایک چھوٹے جہاز میں سوار ہوے جو کہ ہمیٕں الاسکا کی آبادی
فیربینکس(Fairbanks)تک لے کر گیا۔ فیربینکس کو الاسکا کی آخری آبادی سمجھا
جاتا ہے ۔ اس کی آبادی 30 ہزار سے سے کچھ ہی زیادہ ہے اور اس کے آگے ایک
ایساعلاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں کسی باقاعدہ شہر یا قصبے کا کوئی وجود نہیں
ہے۔
فیربینکس پر ہمارا جہاز تقریباً مسافروں سے خالی ہو گیا۔ اس میں پھر اس میں
وہ سامان لادا گیا جو صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ہی پوینٹ بیرو پہنچایا جاتا
ہے۔
ہم جس جگہ جا رہے تھے وہ صرف آرکٹک سرکل ہی نہیں بلکہ سرکل کی لکیر سے 330
میل دور تھا۔ وہاں ائیر پورٹ نہیں بلکہ ایر بیس تھی اور اس میں ٹرمنل کی
بجائے ایک شیڈ تھا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ وہ جہاز کو اس شیڈ سے 40 فٹ کے
فاصلے پر روکے گا۔ اور کوئی بھی شخص یہ فاصلہ گرم کپڑوں کے بغیر طے کرنے کی
کوشش نہ کرے کیونکہ باہر سردی کی شدت آپ کے تصور سے بھی زیاد ہے۔ اس نے یہ
بھی کہا کہ آپ لوگ باہر کھلی فضا میں کھڑے ہوکر منظر دیکھنے کا خیال دل سے
نکال دیں اور سیدھے شیڈ میں پہنچنے کی کوشش کریں۔
پائلٹ کی آخری ہدایات یہ تھیں کہ شیڈ بہت چھوٹا ہے اور اس لیے اپنا سامان
اپنے قریب سے قریب رکھیں تاکہ تمام لوگوں کے لیے جگہ بن سکے۔
شیڈ کے اندر افرا تفری کا عالم تھا۔ صرف ایک ٹیلی فون تھا ،جسے سب استعمال
کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عام طور پر صحافی کسی بھی جگہ اترنے سے پہلےہی
اپنے رابطے بناچکے ہوتے ہیں۔ وہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر انٹرویو کے لیے
مقام اور وقت طے کرچکے ہوتے ہیں۔ مگر وہاں کی صورت حال اس سے یکسر مختلف
تھی۔ یہ تمام امور ہمیں جہاز سے اترنے کے بعد انجام دینے تھے۔ ہمیں اسی
عمارت میں ٹہرنا تھا جہاں عموماً جہاز کا عملہ قیام کرتاہے۔ مگر اپنی منزل
تک پہنچنے کا بندوبست ہمیں خود کرنا تھا۔
انوپیق قبیلہ دنیا بھر میں اپنی مہمان نوازی اور دوستی کی وجہ سے شہرت
رکھتا ہے۔ ہمارا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ بہت سے انوپیق باشندے یہاں آنے
والے سائنس دانوں ، میڈیا اور فوج کے افراد کو اپنی گاڑیوں میں ایک مقام سے
دوسرے مقام تک لے جانے کا کام کرتے ہیں۔ وہاں ہماری ملاقات ایک ایسے ہی ایک
شخص سے ہوئی جو صرف یہ دیکھنے ائیر بیس پر کہ اس فلائٹ سے کون آیا ہے۔ اس
سے گپ شپ لگانے کے بعد یہ طے ہوا کہ وہ 12 ڈالر میں ہمیں اس مقام تک پہنچا
دے گا جہاں ہم رات گذار سکتے تھے۔
آرکٹک کا سفر کرنے والے اکثر اس ڈیپریشن کا ذکر کرتے ہیں جسے Time and
Space Distortionبھی کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ ایک ایسے مقام پر ہوتے ہیں جہاں
سورج نہیں نکلتا، جہاں کوئی درخت ہے اور نہ ہی کوئی پہاڑی ٹیلا۔ آپ وہاں سے
کئی کلومیٹر دور بھی چلے جائیں تو منظر نہیں بدلتا۔ ان دونوں کیفیات کی وجہ
سے انسان اپنے وجود کو زندگی میں پہلی بار وقت اور جگہ کے احساس سے الگ
تھلگ محسوس کرتا ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس کے لیےآپ کا وجود خود کو تیار
کرنے آمادہ نہیں ہوتا۔ انسان کا دل تبدیلی کی خواہش کرتا ہے کہ سفید اجلی
برف کے سوا بھی کوئی چیز نظر آئے ۔ وہ وقت میں بھی تبدیلی کے لیے بھی ترستا
ہے کیونکہ وہاں وقت ٹہرا ہوا سا لگتا ہے، کیونکہ سورج نکلتا ہی نہیں ۔
وقت او رمقام کا احساس ایک ایسی کیفیت ہے جو بڑے بڑوں کو رونے پر مجبور کر
دیتی ہے۔ آپ کو محض 15 سیکنڈ بھی ایک گھنٹے سے زیادہ محسوس ہونے لگتے ہیں
۔۔ انسان تبدیلی دیکھنے کے لیے اگر چیخنا چاہیے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ
یہاں اسے کوئی سننے والا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آرکٹک میں اکثر لوگوں کے
دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں۔
بہت سی جگہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی یادیں اصل تجربے سے زیادہ
قیمتی ہوتی ہیں۔ یعنی برسوں بعداپنے دفتر کی میز پر بیٹھ کر ان گزرے ہوے
لمحات کے بارے میں لکھنا ، وہاں موجود ہونے سے زیادہ لطف دیتا ہے ۔ اس کا
یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ جگہیں جانے کے قابل نہیں۔ آخر ہم سے پہلے بھی تو
حکومتوں اور اداروں نے کثیر سرمایہ خرچ کر کے لوگوں کو وہاں بھجوانے کی
کوششیں کی ہیں۔ مگر یہ معاملہ ایک طرح سے چاند پر اترنے جیسا۔
اگر نیل آرمسٹرانگ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کو چاند پر جانے کی خوشی ہے ؟
تو وہ کہیں گے کہ جی ہاں!لیکن اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ کیا ساری زندگی
وہاں رہنا چاہیں گے؟ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہاہوں۔
بشکریہ:
عبدالعزیز خان، واشنگٹن |