مدینے کو روا نگی
عصر کا وقت تو مکے سے نکلتے ہی ہو گیا تھا چنا نچہ قصر بس میں ہی پڑھ لی
کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ راستہ میں نہیں رکے گی! مگر تھوڑی دیر بعد رکی تو
لوگوں نے اتر کر مسجد میں ادا کی یہاں بھی تواضع کے نام پرڈبہ دیا گیا۔ اب
ذرا سا آگے بڑ ھے تو مغرب ہوگئی اور اندھیرا چھا گیا ۔ دل خوفزدہ تھا رات
کے سفر سے! نیند اور تھکن سوار ہورہی تھی۔ سوچا کہ ہم تو اتنے آرام اور
اعلان کے ساتھ مدینہ جارہے ہیں اور محمدﷺ کس طرح روانہ ہوئے تھے؟ دل اس وقت
اور بوجھل ہوا جب مسافروں پر نظر دوڑائی۔ تقریبا ۷۴ مسافروں میں آدھی تعداد
خواتین کی تھی! کچھ حضرات سگریٹ کے مرغولے اڑا رہے تھے خواتین میں اکثریت
ریشمیں لباس میں ملبوس، دوپٹوں سے بے نیاز سر! اس وقت تو سب ہی چیخ اٹھے جب
ڈرائیور نے ریڈیو آن کیا تو اس میں ایف ایم کے طرز پر پروگرام آرہا تھا ۔با
دشاہ کی صحت یابی پر خوشی کے نغمے ! سب نے شور مچا کر بند کروایا کہ ابھی
ہم حج کرکے آرہے ہیں آلودہ تونہ کرو!جب کئی دفعہ اس نے یہ حرکت کی تو پتہ
چلا کہ وہ سو رہا ہے اورنیند بھگانے کے لیے ریڈیو چلا رہا ہے ! خوف کی ایک
لہر دوڑ گئی۔مدینہ پہنچیں گے یا پھر؟؟
کسی طرح اس کو رکوا یا گیا (پتہ نہیں اردو جاننے والے ڈرائیور کی کمی کیوں
ہے ؟) ایک ہوٹل میں غالباً یمان نام تھا، چائے وغیرہ پی۔ نماز عشاءادا کی،
سب لوگ تشویش میں تھے لہٰذا دعا خوب کی۔ڈرائیور اب چست ہوچکا تھا اور اس
وقت تو اور بھی ہوگیا جب اس نے ایک ریال فی حاجی بخشش وصول کی۔اس مصری
ڈرائیور کا کہنا تھا کہ میں غریب آدمی ہوں اس کی ترجمانی کا فریضہ کرنے
والے سے متا ثر ہو کر سب نے جلدی سے ادا کر دیے۔ خیر اس کے بعد اس نے مناسب
رفتار کے ساتھ چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں مدینہ کے قریب پہنچا
دیا۔لوگوں نے شکر ادا کیا۔
کچھ نے آہستہ آہستہ نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں اور کچھ نے درود ۔بس ٹرمنل
پر پہنچ کر اس نے ہمارے کاغذات حکام کے حوالے کیے۔اس وقت رات کے دس بج چکے
تھے۔پہلے دوسرے گروپ کوان کی بلڈنگ میں اتارا گیا ۔وہا ں کافی وقت لگا۔
کیونکہ ہمار ے گروپ کا سامان بعد میں رکھا گیا تھا لہذا پہلے اس کو اتار کر
نیچے سے ان کا سا مان نکالا گیا ۔ اس چکر میں زم زم کے کئی کین پھٹ گئے۔متا
ثرہ افراد کا غصہ لازمی تھا کیونکہ انہوں نے قطرہ قطرہ کرکے جمع کیا تھا ۔
اس کے بعد ہماری بلڈنگ آپہنچی۔ مسجد نبوی کے مینار بالکل قریب نظر آرہے تھے۔
دل کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔
”قصر عشقی“ہماری بلڈنگ کا نام تھا۔یہاں کمروں کے الاٹمنٹ میں خاصہ وقت
لگا۔ہم تینوں چونکہ ایک فیملی کے تھے لہذا پانچویں منزل پرتین بیڈ والا
کمرہ ہما رے حصے میں آگیا جبکہ دیگر پانچ فیملیز کو ساتویں منزل پردو کمرے
الاٹ ہوگئے ۔ لیکن بقیہ فیملیز کو بڑی دشواری ہوئی جب خواتین کو چھٹی اور
حضرات کو تیسری منزل پر کمرے دیے گئے۔ انتظامیہ نے اسی فلور پر کرنے کی کو
شش کی مگر پہلے سے مقیم لوگوں نے انکار کر دیا۔ (حالانکہ چند یوم بعد کمرے
خالی ہوگئے مگر متعلقہ فیملیز نے بدلنے سے منع کردیا کہ اب تھوڑا وقت ہی تو
رہنا ہے!) ۔ان سارے معاملات کو نبٹا نے میں خاصی دیر لگی اور بارہ بجے تک
ہم اپنے کمروں میں جاسکے۔ تھکاوٹ بہت ہو رہی تھی لہذا ہم کچھ کھائے بغیر ہی
سوگئے۔
راشد (بھائی ) نے ہمیں صاف کہہ دیا کہ یہاں مسجد بہت قریب ہے چنانچہ آپ لوگ
خواتین کے سا تھ گروپ بنا کر جائیں گی! فاطمہ (بھاوج) اور ہم کواس بات پر
کوئی اعتراض نہیں تھا! (ان دونوں کے نام پرآپ کو چونکنا بجا ہے کیونکہ اس
سے پہلے ان کا ذکر نہ آیا تھا۔)دراصل ایک تو یہ کہ دونوں ہمارے ساتھ ساتھ
ہر لمحے رہے بلکہ ان کی وجہ سے ہی ہمیں اس سفر کی سعادت نصیب ہوئی ( اﷲ ان
کو اجر عطا کرے!)۔دوسرے یہ کہ جہاں ان کا ذکر آیا تھا وہ ایڈیٹنگ کے باعث
آپ تک نہ پہنچ سکا۔ ویسے تو آپ کے عزیز پیارے ذہنی اور جذباتی طور پر ساتھ
رہتے ہیں مگر جسمانی اور ظاہری طور پر ساتھ رہنے والوں سے تعلق ہی دوسرا ہو
جاتا ہے! مجھے یاد ہے حج روانگی سے دو روز قبل میں شدید خوف کا شکار تھی کہ
ایک آدمی دہری ذمہ داری کی وجہ سے کتنے دباﺅ میں رہے گا! مگر الحمدﷲ بہت
اچھا تجربہ رہا ،بلکہ دیگر فیملیز کے مقابلے میں زیادہ مطمئن رہے!کیونکہ دو
خواتین کے ایک ساتھ رہنے سے بڑی آسانی ہوتی رھی!
صبح چار بجے آنکھ کھل گئی بلکہ نئی جگہ کی وجہ سے آئی بھی نہیں! ہم دونوں
وضو کرکے اوپر منزل پر موجود اپنے سا تھیوں کے ہمراہ مسجد نبویﷺ روانہ ہوئے۔
میناروں کا تعاقب کرتے ہوئے تمام لوگ ایک ہی طرف رواں دواں تھے۔ڈوبتی رات
کے اس لمحے ہم اپنے جذبات نوٹ کرنے سے قا صر تھے۔ مسجد کے قیام کا منظر
آنکھوں میں آرہاتھا! اسلام کی شوکت کا نشان! وہ اونٹنی یاد آ ئی جس نے اس
جگہ کا انتخاب کیا تھا!!ہم باب علیؓ سے اندر داخل ہوئے تو عملے نے ہماری
رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں اولین صف میں بٹھادیا۔ نفل سے فارغ ہو کر درود
پڑھتے رہے۔ اس کے بعد فجر پڑھی۔
فجر کے فوراً بعد روضہ رسولﷺ کی زیارت کے لیے گروپ تشکیل دیے گئے۔ اردو
بولنے والوں کے ساتھ ہمیں بٹھایا گیا اس میں انڈینز بھی تھے۔ یہاں کے آداب
کے حوا لے سے بریفنگ دی گئی۔ مگر جیسے ہی دروازے کھلے عقیدت مندوں کا گروپ
کسی بھی ہدایت کو نہ مانتے ہوئے بھگدڑ مچاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ معلوم ہوا
کہ اس سلسلے میں اردو والے خاصے بدنام ہیں ۔ ہم آہستہ آہستہ ہدایات پر عمل
کرتے ہوئے ریا ض الجنة پہنچے تو دل کی عجیب حالت تھی۔ کس ذات کے دربارمیں
کھڑے ہیں ! جس نے ہماری خاطر اتنی پریشانیاں جھیلیں ! وہاں نفل ادا کیے اور
درود و سلام پیش کیے۔ادب کے مارے اپنی سانسیں بھی شور مچاتی ہوئی محسوس
ہوئیں۔منتظم خواتین وہاں کسی کو بھی زیا دہ دیر ٹکنے نہیں دیتیں ۔صرف دو
نفل پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے مگر ہم نے کئی خوا تین کو بارہ سے زیادہ پڑھتے
ہوئے دیکھا!
مسجد سے باہر نکلے تو نو بج رہے تھے۔ ہم چار خواتین اپنی رہائش گاہ کی طرف
چلے تو ذرا سا بھٹک گئے مگر پھر فوراً منزل پر آگئے ۔ بھوک پیاس ستا رہی
تھی چنانچہ ہمارا قافلہ ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکلا ۔اوپر جانا تو بےکار تھا
کیونکہ مرد تو پہلے ہی ناشتے فارغ ہوچکے تھے۔ سڑک کراس کرکے پاکستانی ہوٹل
پہنچے اور کھاناکھا کر چائے پی۔کافی بہتر معیار ہے۔ باہر نکلے تودیکھا کہ
سڑکیں دھل رہی ہیں۔ اور یہ کسی فرد کے لیے اہتمام نہیں تھا بلکہ روزانہ
دھلتی تھیں ! آخر نبیﷺ کا شہر ہے جنہوں نے صفائی کونصف ایمان کہا ہے ! اب
بیچ کا وقت تھا مگر کمرے میں جانا ضرو ری تھا کہ سامان درست طریقے سے رکھ
سکیں ۔ مگر بھائی پہلے ہی رکھ چکے تھے۔
ظہر کے وقت پھر ہم نکلے تو لفٹ پر بہت رش تھا۔ کیونکہ ایک ہی ہے! اور پرانی
ہونے کے با عث ذرا نخرے بھی کرتی ہے! اب ہمیں مکہ کی لفٹ یاد آئی اس پر تو
کبھی لائن نہیں لگانی پڑی تھی! انسانی فطرت ہے کہ ہمیشہ گزرے لمحے کو یاد
کرتا ہے ! جی ہاں ! وہاں ہمیں خواتین کے رات گئے تک گفتگو سے الجھن ہوتی
تھی اور یہاں جلدی سونے سے! مگر یہاں یہ ہی ضروری تھا کیو نکہ رہائش قریب
ہو نے کی وجہ سے ہر نماز کے بعد واپس آتے تھے لہذا تھکن خوب ہوتی تھی! موسم
میں بھی تھوڑی خنکی تھی لہذا سوئٹر پہننا پڑتا تھا خصوصاً صبح کی نماز کے
لیے! دن کی روشنی میں بلڈنگ اور اردگرد کا ما حول دیکھا تو لگا کہ ایران کے
کسی شہر میں ہیں! ہر فرد ایرانی ! دکانوں کے نام اور دکانداروں کی زبان
فارسی ! ہماری بلڈنگ کے نیچے بھی چاروں طرف دکانیں ہیں۔ چائے ،کافی اور
سینڈوچ کی باآسا نی فراہمی سے بڑی آسانی رہی۔
اگلے دن فجر کے بعد زیارتوں کا پروگرام ہے۔نماز سے فارغ ہوکر ہم نے چائے
اور سینڈوچ لے لیا۔اور بس میں بیٹھ گئے۔گروپ کے کچھ لوگوں کو دوسری بس میں
بیٹھنا پڑا کیوں کہ پہلے آئیے پہلے پائیے کا اصول لاگو تھا۔ بس چلی تو
گائیڈ نے مسجدنبوی سے ملحقہ جنت البقیع کی طرف اشارہ کیا۔ یہاں کیسی کیسی
نادر ہستیاں مدفون ہیں! ۔تھوڑا آ گے بڑھے تو مسجد جمعہ کی زیارت کی ۔ یہاں
رسو ل اﷲﷺ نے پہلا جمعہ پڑھایا تھا ۔ چونکہ یہ صرف نماز کے اوقات میں کھلتی
ہے لہذا صرف باہر سے دیکھ پائے ۔ ہماری اگلی منزل مسجد قبا تھی۔ یہ عالم
اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد رسول اﷲﷺ نے اپنے صحابہؓ کے سا تھ مل کر
رکھی تھی اور جن کا ذکر قرآن میں بڑے پیار سے کیا گیا ہے۔ یہاں نفل پڑ ھنے
کا ثواب ایک عمرے کے برابر ہے تحیةالمسجد اور نوافل ادا کیے۔ یہاں بہت
خوبصورت منظر ہے ۔ ہریالی ہر طرف ہے ۔ زائرین دھڑا دھڑ تصویریں اور مووی
بنا رہے ہیں ۔ ہمیں بھی کیمرے والامو بائل نہ لانے کا افسوس ہوا۔ مسجد کے
سامنے ایک کنواں بھی ہے۔
اس کے بعد ہم کھجور کے باغات دیکھنے گئے۔ حضرت علیؓ کے باغ میں گئے وہاں سے
لوگ عقیدت میں شاخیں بھی توڑ لائے۔ یہاں بہت مہنگی کھجوریں مل رہی تھیں
لہٰذا سوائے ایک فرد کے کسی نے نہ خریدی۔ اور جب انہیں معلوم ہوا تو وہ
گائیڈ پر برس پڑے کہ اس کی باتوں میں آکر وہ بےوقوف بنے اور اس فراڈ میں وہ
بھی ان کا ساتھی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے زبردستی تو نہیں کی تھی اور
ان کو پیسے دینے لگا کہ ان کی ناراضگی کم ہو مگر پھر وہ صاحب ٹھنڈے پڑگئے۔
بئر عثمان دیکھنے گئے جو حضرت عثمان غنیؓ نے خرید کر ہبہ کر دیا تھا۔ کتنے
پیارے ساتھی ملے تھے رسو ل اﷲﷺکو! ایک کنویں کے بارے میں پتہ چلا کہ یہاں
حضرت عثمانؓ سے مہر نبوت والی انگو ٹھی گر گئی تھی جس پر منافقین نے بہت
شورش بپا کی اور بالآخر عثمانی خلیفہ کے دور میں اس کا پورا پانی نکال کر
انگوٹھی دریا فت کی گئی اور اب یہ ترکی کے عجائب خانے میں رکھی ہے۔ رسول
اﷲﷺ کے ننھیال کا گاﺅں بھی دیکھا۔ وہ باغ بھی دکھایا جہاں حضرت سلمان فارسی
ملازم تھے۔جنگ خندق کے موقع پر پہاڑ کی چوٹی پر جہاں آپﷺ نے اپنا کیمپ قا
ئم کیا تھا وہاںمسجد ہے ۔غالباً مسجد فتح !گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دیکھ کر
عجیب سا احساس ہو رہا تھا ۔ آپﷺ کی حکمت عملی دیکھ کر!
اس کے بعد ہم جبل احد دیکھنے گئے۔ اس پہاڑ کی بہت اہمیت آنحضرتﷺ کی زندگی
میں رہی ہے ۔ اس کے دامن میں ایک احاطہ ہے جس میں حضرت حمزہؓ اور دیگر
صحابہ کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ سامنے ٹیلے پر وہ درہ ہے جہاں غزوہ احد کے
موقع پرحضورﷺ نے تیراندازوں کو مقرر کیا تھا مگر فتح کے آثار دیکھ کر انہوں
نے وہ جگہ چھوڑ دی جس کے باعث فتح عارضی شکست میں بدل گئی اور تقریباً
سترصحا بہ شہید ہوگئے ۔یہ ایک بہت بڑانقصان تھا۔ غزوہ احد کی شکست کے دو
اسباب تھے۔ امیر کی حکم عدولی اور مال کی چاہت! یہ دونوں مشاہدے یہاں بھی
موجود تھے۔ لوگوں کو گاڑی میںبیٹھنے کو کہا جارہا تھا مگر وہ معمولی
اشیاءکی خریداری میں مشغول تھے! اس میں صرف ہماری نہیں دیگر اقوام ترکی ،
ملائی وغیرہ بھی برابر کے شریک تھے۔ مکے کے مقابلے میں مدینے میں شرک کی
ممانعت اور سنتوں پر اصرار زیادہ محسوس ہوا۔ یہاں ہر مقام پر لوگ نوافل ادا
کرنے پر اصرار کرتے ہیں جبکہ مقامی لوگ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔
جاری ہے |