پھر قافلے چلے سفرنامہ حج آخری حصہ

ہماری اگلی منزل ’مسجد قبلتین ‘ تھی۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں نماز کے دوران قبلہ تبدیل ہونے کا حکم الٰہی آیا تھا۔ یہ دو قبلوں والی مسجد بہت خوبصورت ہے۔ مدینے میں چونکہ مساجد کے اندر خواتین کا حصہ الگ ہوتا ہے لہذا سب کے جمع ہونے میں ذرا وقت زیادہ لگتا ہے ۔اس کے بعد مدینے کی حدود سے باہر وہ مقام دکھایا گیا جہاں دجال آکر رک جا ئے گا ۔یہاں شاہی محلات ہیں ۔ آسائشوں سے پُر یہ علاقہ امریکی کالونی لگتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دجال جب اس مقام تک پہنچ جائے گا توبہت سے لوگ خوفزدہ ہو کر یہاں سے نکل جائیں گے۔ یہ منافقین ہوں گے ،اس طرح مدینہ ان سے پا ک ہوجائے گا!

اب ہم سب تھک چکے اور سفر بھی واپسی کا شروع ہوا۔ اپنی جگہ پہنچنے سے پہلے مسجد اجابة کے بارے میں بتایا کہ یہاں رسول اﷲکی دو دعائیں قبول ہوئیں جو مدینہ کی خوشحالی اور بلاﺅں سے محفوظ رہنے کے با رے میں تھیں اور جو دعا رب کائنات نے قبول نہ کی وہ بھائی بھا ئی بن جانے کے بارے میں تھی۔خا لق تو اپنی مخلوق کو زیادہ بہتر جانتاہے!رہائش گاہ پہنچ کر ہم سب تازہ دم ہو کر نماز ظہر کے لیے روانہ ہوگئے۔یہاں چالیس نمازوں کے بارے میں لوگ بہت محتاط ہیں!

مدینے میں تیزی سے وقت گزر رہا ہے! ریاض سے بھابھی نے آنے کا پروگرام بنایا تھا ہم لوگو ں سے ملاقات کے لیے مگر فلائٹ نہ ملنے کے با عث نہ آسکیں۔ہفتہ واری تعطیل میں مسجد نبوی میں بہت رش دیکھنے میں آیا۔ عید کاسا سماں محسوس ہوا۔ قریب کے سارے لوگ آجاتے ہیں ۔ بالکل پکنک لگ رہی تھی۔ بعض بچیوں کے ڈریس قابل اعتراض محسوس ہوئے ۔بس اوپر سے عبایا پہن کر باہر نکلتی ہیں جبکہ ہماری طرف کی خواتین باہر بھی اسی حلیے میں آجا تی ہیں۔ جمعہ میں امام صاحب نے مختصر ترین سورتیں تلاوت کیں۔ یہ اسی ہادی برحقﷺکی تلقین ہے کہ لوگوں کوتکلیف نہ ہو۔

سنا ہے کہ پہلے پورا شہر مدینہ مسجد نبوی جتنا تھا ،مگر اس کی توسیع کرکے پوری مسجد بنادی گئی ہے ۔بناوٹ کے لحاظ سے بہترین ہے ۔ نماز کے اوقات میں اندر جاکر جگہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برا بر ہے مگر کچھ خواتین اس میں ماہر ہیں ۔ مسکرا مسکرا کر جگہ بنالیتی ہیں اور جو صبح سے بیٹھی ہوتی ہیں بےچاری جگہ دینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ یہاں سیکورٹی اور انتظامات پر ما مور لڑکیاں بڑی پُرجوش ہیں ! مکہ میں تو ہم نے کبھی ان کی آواز تک نہ سنی تھی مگر یہاں چیخ چیخ کر کنٹرول کرتی رہتی ہیں ! ہمارے حلیے کی خواتین کو باجی، ایرانیوں کو حنا اور خانم جبکہ انڈونیشی کو لیمو کہہ کر مخاطب کرتی ہیں ۔کبھی کبھار ان کا شور بہت گراں گزرتا ہے ۔ بالکل اس مانیٹر کی طرح جو خود سب سے زیادہ شور مچائے۔ مگر عقیدتوں سے سرشار ،زیارت کے وقت بھگدڑ مچانے والوں کو بڑی خوش اسلوبی سے نبٹاتی ہیں۔ مسجد میں لائبریربھی ہے ۔ وہا ں پورا ایک شیلف اردو کتب کاہے۔ پاکستا نی کتب کی تعریف و توصیف منتظمہ نے بھی کی۔ مسجد میںمردوں کے حصے میں بعد عصر درس ہوتا ہے جبکہ خواتین کی طرف بھی تجوید کے حوالے سے دروس کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں ایک خوبصورت منظر وہ ہوتا ہے جب سلائیڈنگ چھت ہٹائی جاتی ہے۔ ہائیڈرالک چھتریاں بھی بڑی دلکش ہیں۔

مدینے میں ہمارا آخری دن آپہنچا ! اس دن ہم نے تینوں اوقات ( فجر،ظہراور عشائ) میں زیارتیں کیں ۔آخری سلام پیش کرتے ہوئے دل عجیب سا ہورہا تھا۔ عورتیں تو زارو قطار رو رہی تھیں ۔ عقیدت کا یہ مظا ہرہ نہ جانے احکام نبویﷺ کی ادائیگی کے وقت کیوں نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے؟ صبح چار بجے بس کی روانگی تھی۔ ہم نے تین بجے ہی اپنا سامان نیچے اتار دیا تھا۔ مگر بس کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا۔ اور اس وقت تو بڑا رش ہوگیا جب زائرین سے بھری ایک اور بس آپہنچی۔ لوگوں سے جلدی کمرے خالی کروائے گئے اور ہم سب بس کے انتظار میں لاﺅنج میں بیٹھے۔ بالآخر آٹھ بجے بس آپہنچی۔ دوسری بلڈنگ سے لوگوں کو پہلے لیا۔ ان لوگوں نے سیٹوں پر سامان رکھا ہوا ہے۔ بڑی مشکل سے سیٹ وا گزار کر وا ئی۔ ہمیں ڈرائیور کے قریب والی جگہ ملی۔ نو بجے کے قریب بس روانہ ہوئی۔ میناروں کو ہم دور تک ڈبڈبائی نظروں سے تکتے رہے۔

ہماری اردگرد کی سیٹو ں پر جب سگریٹ کے مرغولے اڑے تو ہم نے روکنا چاہا نو اسموکنگ کے بورڈ کی طرف اشا رہ کرکے مگر ان کی بدزبانی کی وجہ سے خاموش ہونا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کو خود سگریٹ پیتے دیکھا ! یہ وہی ہے جو ہمیں مدینے لے کر آیا تھا۔ بس کی حالت انتہائی خستہ، پردے کی عدم موجودگی دن کی دھو پ میں بہت کَھل رہی تھی۔اے سی چلانے اور بند کرنے پر مستقل ایک بحث رہی۔

تقریبا گیارہ بجے کے قریب کچھ لوگ ڈرائیورسے کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ بس میں چیخوں کی آواز گونجنے لگی۔ کچھ جو اونگھ رہے تھے سمجھے کہ بس کا ٹائی راڈ ٹوٹ گیا ہے(کیو نکہ ایک دن قبل ہی ایک بس حادثے کا شکار ہوئی تھی)۔ اناﷲ پڑھ ہی رہے تھے کہ پتہ چلا کہ چھت کے اوپر سامان پر لپٹی رسی کھل گئی ہے۔ ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ اتنی محنت سے خریدے اور پیک کیے گئے سامان کی بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ بس کی اسپیڈ ہلکی کرنے پر ہائی وے پولیس آپہنچی۔ آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے کچھ میٹر کے فاصلے پر بنے ریسٹ ہاﺅس تک لے کر آئے۔ یہاں ایمرجنسی کے عملے نے دوبارہ سامان باندھا ۔ یہاں ایک مسجد بھی تھی۔نفل ادا کیے۔خدا خدا کرکے روانہ ہوئے۔

بس کی اسپیڈ کم ہونے پرلوگ سخت تشویش کا شکار تھے کہ ہم وقت پر نہ پہنچ پائیں گے! پتہ چلا کہ پٹرول کم ہے ۔ پھر ایک پٹرول پمپ پر گاڑی روکی اور ایندھن بھروایا۔ ایک ریال میں تقریباً چار لیٹر! یہاں پر ہی ڈرائیور نے لنچ بریک کردیا۔لوگ تو ٹینشن کے مارے کھانہ سکے مگر وہ خوب سیر ہو کر آیا۔ اس کے سگریٹ سلگا نے پر جب کسی نے تو جہ دلائی تو اس نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ آپ لوگ حاجی ہوکر بھی تو پی رہے ہیں ! کیا جواز ہے ! پھر اس نے اپنا ایک ریال بخشی کا مطالبہ دہرایا !لوگ جو اسپیڈو میٹر پر نظریں گا ڑے ہو ئے تھے جلدی سے اسکو ریال دینے لگے کہ ہمیں بروقت جدہ پہنچا دے !

چار بجے کے قریب جدہ کی حدود نظر آ نے لگی۔مگر پہنچتے پہنچتے پانچ بج ہی گئے تھے۔ ائرپورٹ کی حدود میں دا خل ہوئے تو کئی جہاز اڑتے نظرآئے ۔کچھ لوگ مذاق کرنے لگے کہ جہاز ہمیں لیے بغیر اڑگیا!۔ہماری فلائٹ کا وقت تو نو چالیس ہے۔ ہم سب کی حاضری لے کر پاسپورٹ ہمارے حوالے کیے گئے۔اب سامان بہت حکمت عملی سے اتارکر بڑی ٹرالیوں میں لاد کر مرد حضرات امیگریشن کی طرف روانہ ہوئے۔خواتین نے ائرپورٹ کے بیرونی حصے میں بنی مسجد کے اندر نماز عصر اور پھر فوراً ہی مغرب ادا کی۔ چائے کی شدید طلب تھی چنا نچہ ریسٹورنٹ سے لے کر ابھی پی ہی رہے تھے کہ مرد جلدی کا نعرہ لگاتے ہوئے آپہنچے ۔ اب ہمیں بھی فوری طور پر اندر جانا ہے! کسٹم میں کافی لمبی لائن تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آٹھ بجے ڈیوٹی تبدیل ہوتی ہے اور نیا عملہ آنے میں کچھ تاخیرہوئی۔ تھکاوٹ ، بھوک اور نیند سے براحال ہے۔ اتنے مقدس سفر کے خاتمے اور ساتھیوں سے بچھڑنے کے جذ بات بھی کچھ مزاج کوچڑچڑا کر رہے ہیں ۔فلائٹوں کے لیٹ ہونے کی خبریں عام تھیں لہذا ہم نے سوچا ہوا تھا کہ باری باری نیند پوری کرلیں گے مگر یہاں تو عملے کو اتنی جلدی ہے کہ کیا بتائیں !

جہاز کے دروازے پر پہنچے توبھائی بھاوج کو ائرہوسٹس نے اوپری منز ل پر اپنی سیٹ پر بھیج دیا لیکن جب ہماری باری آئی تو جہاز کی لائٹ چلی گئی اور وہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ ہم چونکہ باہر کھڑے تھے اسلیے روشنیوں میں تھے ۔اس عالم میںبھی ہنسی آگئی کہ کراچی جانے والے جہاز میں بھی لوڈ شیڈنگ سے نجات نہیں ! اس عالم میں بیس منٹ گزر گئے۔ ہمارے پیچھے ایک لمبی لائن تھی اور تصور میں جہاز لیٹ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ہمارے پیچھے ایک بزرگ جوڑا تھا وہ ائرہوسٹس سے اصرار کرنے لگے کہ ٹارچ کی رو شنی میں ہمیں سیٹ پر بٹھادو! اس نے بڑی خوبصورتی سے ان کو انکار کیاکہ ہمیں اجازت نہیں اور جہاز تو اڑ بھی نہیں سکتا جب تک مسا فر پورے نہ ہوں!

خیر لائٹ آتے ہی تیزی سے کا م ہوا اور پندرہ منٹ تاخیر سے جہاز روانہ ہوگیا۔یہ بھی اس وجہ سے ہوا کہ ایک حاجی کا پتہ نہیں چل رہا تھا اور ان کی سیٹ خالی تھی۔سب نے کراچی میں اپنے گھروالوں کو روانگی کی اطلاع دے دی تاکہ وہ خیرمقدم کے لیے آسکیں ورنہ اس سے پہلے تو بے یقینی سی تھی۔ تھوڑی دیر میں کھانا پیش کردیا گیا۔بھوکے پیاسے حاجی کھانے کے سا تھ انصاف کرنے لگے۔اس کے بعد نیند کا زور تھا۔ اور اس طرح ٹھیک چا ر بجے ہم کراچی پہنچ گئے۔ سب نے اپنی سم بدل لی کہ باہر والوں سے رابطہ کریں! جہاز کے رکنے کے بعد سیڑھی لگائی گئی ۔ہم نے یہ بات جاتے وقت ہی سوچی تھی کہ عموماً حاجی بڑی عمر کے بزرگ ہوتے ہیں اور زندگی میں ایک ہی سفر کرتے ہیں تو ان کو تو اعلٰیٰ سہولیات فراہم کرنا چاہیے بجائے اسکے کہ ان کو سیڑھیوں اور بس کی کھکیڑ اٹھانی پڑے! شاید آئندہ اس بات کا خیال ارباب اختیار کو بھی آجائے۔اور معمر حاجیوں کو ائرپورٹ پرٹنل کی سہولت مل سکے۔

استقبالیہ پر سب موجود تھے رضا کاروں نے ہماری ٹرالی تھام لی اور باہر کی طرف چلے۔ شدید اندھیرے سے گزر کر باہر آئے تو فقیروں نے یلغار کردی۔ کوئی ہار پھول مانگ رہا تھا کہ اس کو کسی اورکے گلے میں ڈال کراس سے نذرانہ وصو ل کرلے اور کوئی ایک دو ریا ل مانگ بیٹھا۔ کچھ عقیدت مند گاڑیاں سجاکر لائے ہوئے تھے۔ اتنے بروقت گھر پہنچنے پر سب حیرت زدہ تھے۔ تو جناب یہ تھی ہماری سفر حج کی روداد !جس کو پڑھتے ہوئے شا ید کچھ لوگوں کو تحفظات ہوں کہ اتنی جزئیات اور مشکلات کا ذکر لوگوں کو حج سے خائف کرنے کا باعث بن سکتاہے؟ لیکن ہمارے خیال میں لوگ جب حقائق کی نظر سے اس سفر کو لیتے ہیں دل شکنی سے محفوظ رہتے ہیں،جیسا کہ ہم نے محسوس کیا۔ حقیقت یہ ہے پریشانیوں کی اتنی آگہی کے باوجود حاجیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور کیوں نہ ہو یہ ہر مسلمان کے دل کی آرزو ہوتی ہے کہ ایک نظر اس جگہ کو دیکھ لے۔حج تو مشقت کا نام ہے اور دن بدن اس میں آسانیاں مہیا کی جا رہی ہیں مگر مسائل کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ اصل جو توجہ کرنی ہے کہ کم ازکم اس دربار میں تو لوگوں میں تفریق کم سے کم ہو۔

ہمارے والدین نے 1990 میں حج کیا تھا۔ اُس سال شاید پہلی دفعہ حج میں کرپشن نظرآیا تھا جبکہ اس وقت ٹین پرسنٹ کی بات تھی اب تو سب کچھ قبضے میں ہے تو کیا کہنے! ہر سال لوگ تکالیف اٹھاتے ہیں اس سال کیا خاص بات ہے؟ اس سال میڈیا اور عدلیہ نے اس ایشو کو بہت اچھی طرح ہائی لائٹ کیا جس کے باعث سب لاوے کی طرح پھٹ پڑا! کہیں سے تو بات شروع ہوگی کبھی تو حساب کتاب لیا جائے گا؟؟

حج زندگی میں ایک دفعہ ہی فرض کیا گیا ہے مگر جو ایک دفعہ کرلیتا ہے اس کا دل وہیں اٹکا رہتا ہے ۔جسم خواہ مشقت سے کتنا ہی گھبرائے ذہن وہیں رہتا ہے،پھر حج کا موسم ہے ! قافلے رواں دواں ہیں اور ہمارا دل بھی ان کے ساتھ محو سفر ہے !!!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80562 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.