نیتن یاہو کی بربریت اور مغرب کی منافقت
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
غزہ کی گلیوں میں بھوک سے بلکتے بچے، ملبے تلے دبے لاشے، ماں کے رحم میں پلتی ہوئی زندگی تک کو دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جانے والے مناظر، دنیا کے سامنے کسی فلمی منظر کی طرح بار بار پیش کیے جا رہے ہیں — مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
یہ صرف جنگ نہیں، یہ نسل کشی ہے۔ ایک ایسی منظم مہم، جسے نیتن یاہو جیسے ظالم سیاسی رہنما نے انسانیت کے خلاف آغاز کیا، اور امریکہ، جرمنی جیسے مہذب کہلانے والے ممالک نے اس کی سرپرستی کی۔
جس فلسطینی کا گھر چھینا گیا، جس کی مسجد شہید ہوئی، جس کی ماں، بہن، بیٹی کا جنازہ اس کے کندھوں پر اٹھا، وہ اگر آواز اٹھائے تو "دہشت گرد"۔ اور جو بندوق اٹھا کر اس کا سب کچھ چھینے، وہ مغرب کا "محافظ"؟
نیتن یاہو نے جس دیدہ دلیری سے غزہ پر بمباری کی، اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں تک کو نہ بخشا، وہ کسی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ ایک نظریاتی ظلم کا عکاس ہے۔ ان کے نزدیک فلسطینی، انسان نہیں — صرف "دہشت گرد" ہیں، اور ان کا قتل "دفاع" کے زمرے میں آتا ہے۔
آج کا غزہ ایک کھلی جیل ہے۔ خوراک، پانی، بجلی، ادویات، سب کچھ بند۔ حاملہ خواتین بے علاج، معذور بچے بے آسرا، مگر اسرائیل کی جارحیت پر دنیا خاموش۔ اور یہ خاموشی کسی لاچاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دانستہ خاموشی ہے — ایک مجرمانہ خاموشی۔
امریکہ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دیتا ہے۔ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کرتا ہے۔ اور یہی وہ منافقت ہے جس نے انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعوے کو محض ایک نعرہ بنا دیا ہے۔
دنیا میں انصاف کا پیمانہ بھی مذہب، نسل، اور مفاد کے تابع ہو چکا ہے۔ اگر ایک اسرائیلی فوجی مارا جائے تو پوری دنیا ہل جاتی ہے، مگر جب سیکڑوں فلسطینی بچے ایک دن میں دفن کیے جائیں تو عالمی میڈیا اسے "collateral damage" کہہ کر گزار دیتا ہے۔
اسلامی دنیا بھی اس ظلم پر ندامت کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ بیان بازی، قراردادیں، اور "شدید مذمت" سے آگے نہ بڑھ سکی۔ کئی مسلم حکمران اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، اور کچھ اس کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر آج ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ فلسطینی اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے حق، اور اپنی عزت کے لیے لڑ رہے ہیں — اور اگر یہ جرم ہے، تو پھر انسانیت کا ہر اصول بے معنی ہو گیا۔
دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا: مظلوم کا ساتھ دینا ہے یا ظالم کی صف میں کھڑا ہونا ہے۔ خاموش رہنا اب جرم بن چکا ہے۔
|
|