جرمنی کا کفارہ
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
"قاتل کا کفارہ یا مفاد کا تقاضا؟ — جرمنی اور اسرائیل کا غیر معمولی رشتہ" |
|
جرمنی ایک ایسا ملک جس نے بیسویں صدی کی سب سے بڑی انسانی نسل کشی کا ارتکاب کیا، آج اسی نسل کی قائم کردہ ریاست کا محافظ اور خیر خواہ بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ جرمنی اور اسرائیل کا تعلق ایک ایسا غیر معمولی سیاسی و اخلاقی مظہر ہے جسے بغیر تاریخی تجزیے کے سمجھنا ممکن نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، نازی جرمنی کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبرز، جبری مشقت، اور منظم قتل و غارت کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اس قتل عام کو "ہولوکاسٹ" یا "شوآہ" کہا جاتا ہے، جس نے انسانی تاریخ کو شرمندہ کر دیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوا، تو مغربی جرمنی نے اس جرم کا اعتراف کیا اور خود کو عالمی سطح پر اخلاقی کفارے کے لیے پیش کیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، 1952 میں جرمنی اور اسرائیل کے درمیان لکسمبرگ معاہدہ ہوا، جس کے تحت جرمنی نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی مالی امداد دینے کا وعدہ کیا۔ ان رقوم سے اسرائیل نے ریلوے نظام، بجلی گھروں، ہاؤسنگ اسکیموں اور معیشت کی بحالی میں مدد حاصل کی۔ یہ جرمن رویہ بعض حلقوں میں اخلاقی کفارے کے طور پر سراہا گیا، لیکن بہت سے ناقدین نے اسے یہودی لابی کے سیاسی دباؤ اور مغربی بلاک میں اپنی جگہ بنانے کی اسٹریٹجک چال قرار دیا۔ 2008 میں چانسلر اینجیلا مرکل نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:"اسرائیل کی سلامتی جرمنی کی ریاستی پالیسی کا لازمی جز ہے۔" یہ جملہ معمولی نہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی نہ صرف اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، بلکہ اگر کبھی اسرائیل پر جنگ مسلط ہوئی تو جرمنی عملاً اس کے دفاع میں شامل ہو سکتا ہے۔ جرمن اسلحہ، ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس میں اسرائیل کو مسلسل سہولت دے رہا ہے، جن میں ڈولفن کلاس آبدوزیں شامل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ سوال آج بھی قائم ہے کہ آیا جرمنی کی اسرائیل نوازی واقعی ندامت اور توبہ پر مبنی ہے، یا یہ سیاسی و اقتصادی مفادات کا ایک لبادہ ہے؟ جرمنی یورپی یونین میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس مہارت جرمنی کے لیے اہم ہے۔ جرمنی کے اندر یہودی لابی اور امریکہ سے قریبی تعلقات کی خواہش بھی ایک بڑا عنصر ہے۔ جرمنی کی منافقت؟ فلسطین پر خاموشی کیوں؟ یہ وہ نکتہ ہے جہاں جرمنی کا دوہرا معیار سامنے آتا ہے۔ جرمنی جہاں ایک طرف ہولوکاسٹ کا پچھتاوا کرتا ہے، وہیں غزہ، مغربی کنارے، اور فلسطینی بستیوں میں اسرائیل کے مظالم پر یا تو خاموش رہتا ہے یا نرم لہجے میں متوازن موقف اختیار کرتا ہے۔ کیا فلسطینی بچے انسان نہیں؟ کیا اسرائیلی بمباری کے نیچے دبنے والے خاندان ہولوکاسٹ کے سائے میں دفن کیے جا سکتے ہیں؟ جرمن عوام کا بدلتا ہوا نظریہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمن حکومت کے برخلاف، عوامی رائے میں اسرائیل کی حمایت کم ہو رہی ہے۔ متعدد سروے ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی کی نئی نسلیں اسرائیل کی طرف غیر مشروط جھکاؤ کو ناانصافی تصور کرتی ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بڑھ رہا ہے۔ جرمنی نے جو جرم کیا، اس کا کفارہ ادا کرنا لازم تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک جرم کا کفارہ دوسروں پر ظلم کی چشم پوشی کے ذریعے ادا کیا جا سکتا ہے؟ جرمنی اگر واقعی "کبھی دوبارہ نہیں " (Never Again) کے نعرے پر یقین رکھتا ہے، تو اسے فلسطین، شام، عراق، اور دیگر مظلوم اقوام کے حق میں بھی ویسا ہی واضح اور اخلاقی موقف اختیار کرنا ہوگا جیسا وہ اسرائیل کے لیے کرتا ہے۔ کیا جرمنی کا اسرائیل سے لگاؤ سچ کا اعتراف ہے یا عالمی طاقتوں کا دباؤ؟ فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں
|
|