“ یاد ماضی عذاب ہے بہاولنگر جنکشن “




“ یاد ماضی عذاب ہے بہاولنگر جنکشن “


انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ



پاکستان میں تقسیم ہند سے پہلے کراچی لاہور دہلی کے علاوہ ایک دوسری مین لائین بھی کراچی سے براستہ سمہ سٹہ ، بہاولنگر اور بٹھنڈہ سے ہوتی ہوئی دہلی جاتی تھی یہ نسبتاً مختصر راستہ تھا اور یہاں سے روزانہ درجنوں کے حساب سے مسافر اور مال گاڑیاں دہلی آتی جاتی تھیں۔ اس لائن پر ایک بڑا اور سنٹرل اسٹیشن بہاولنگر جنکشن ہوا کرتا تھا جہاں انگریز بھی کام کرتے تھے ، آج اسی کا قصہ سنیں ۔ یہ سب کچھ ختم ہو گیا مگر یادیں ابھی باقی ہیں.

بہاولنگر جنکشن میں آنے جانے والی گاڑیوں کا قیام قدرے طویل ہوتا تھا کیونکہ ایک تو جنکشن ہونے کی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت تھی، دوسرا وہاں انجن اور گاڑی میں پانی بھرا جاتا تھا اور ڈبوں کی صفائی وغیرہ بھی ہوتی تھی۔ پھر یہیں سے ایک اور سرحدی قصبے فورٹ عباس کی طرف ایک لائن نکلتی تھی، اس لیے وہاں کے مسافروں کو بھی اپنا سفر آگے جاری رکھنے کے لیے اس لائن پر اترنا یا یہاں سے سوار ہونا ہوتا تھا۔بہاولنگر ویسے بھی اس علاقے کا بہت بڑا اور اپنے وقتوں کا جدید ترین ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا، جہاں تمام سہولتیں، کھانے پینے کے سٹال اور مسافر خانے وغیرہ موجود ہوتے تھے۔

لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جب ریل کی یہ پٹری بچھائی جا رہی تھی تو اس کے قریب ہی کوئی دو کلومیٹر دور ایک چھو ٹا سا گاؤں روجھاں والی ہوتا تھا۔ انگریز اس گاؤں کو " گھسیٹ "کر اسٹیشن والی جگہ پر لے آئے اور یہاں 1894ءمیں ایک ریلوے اسٹیشن بنا کر اس کا نام روجھاں والی رکھ دیا۔ پھرعلاقے کے کچھ معززین کے بے حد اصرار پر ریاست بہاولپور کے نواب محمد بہاول نے اس اسٹیشن کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی۔ اور اس کے بعد یہ بہاول نگر اسٹیشن کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔ پھرجب 1928ءمیں یہاں سے فورٹ عباس کی برانچ لائن کا آغاز ہوا تو یہ اسٹیشن سے جنکشن بن گیا۔ کراچی اور کوئٹہ سے بھی سامان سے بھری ہوئی بے شمار مال گاڑیاں یہاں سے گزرتی تھیں جو ایک طرف تو کراچی کی بندر گاہ پر اتارا جانے والا سامان دہلی پہنچاتی تھیں تو دوسری طرف وہ کوئٹہ چمن وغیرہ سے تازہ، پھل، سبزیاں، خشک میوہ جات اور معدنیات وسطی اور جنوبی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں لیے جاتی تھیں۔

1935ءسے 1940ءکے بیچ بہاول نگر اسٹیشن پر گاڑیوں کی آمد و رفت عروج پر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت یہاں سے روزانہ تیس پینتیس گاڑیاں گزرا کرتی تھیں ۔انجنوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے یہاں ایک بڑا ورکشاپ بھی تھا جہاں بیک وقت چار انجنوں کی تکنیکی دیکھ بھال اور مرمت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ہنگامی حالات سے نبٹنے کے لیے اضافی انجن بھی موجود رہتے تھے۔

اُن دنوں میں یہاں بے شمار ریلوے کے ملازمین مصروف ِ کار رہتے تھے، جن کے لیے اسٹیشن کے قریب ہی بڑی تعداد میں کوارٹر تعمیر کیے گئے تھے اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے یہاں ابتدائی جماعتوں کے لیے اسکول بھی بنا کر دئیے گئے تھے ۔ یہ اتنا بڑا اسٹیشن تھا کہ یہاں انگریز افسروں اور انجنیئروں کی تعیناتی ہوا کرتی تھی اور قریب ہی ایک کالونی میں ان کے شایان شان رہائش گاہیں مہیا کی جاتی تھیں جہاں ان کو تمام سہولتیں، جن میں کلب ، ناچ گھر ، اسکول اور کھیل کود کے میدان ہوتے تھے ۔ اس کے علاوہ یہاں میٹھے پانی کے بڑے بڑے ٹینک بھی بنوائے گئے تھے جہاں سے اسٹیشن ، اورکالونیوں اور کوارٹروں کو پانی کی سپلائی دی جاتی تھی۔ ایک بڑا بجلی گھر بھی تعمیر ہوا ۔ اِنھی دنوں نہری نظام کے مکمل ہونے کے بعد اب یہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت اور ہریالی نظر آنے لگی تھی۔

بہاول نگر سے روانہ ہو کر یہ گاڑیاں ریاست بہاولپور کے آخری قصبوں میں سے ایک یعنی منڈی صادق گنج پر پہنچ کر دو مختلف راستوں سے دہلی چلی جایا کرتی تھیں۔ ایک راستہ امروکا اور فاضلکا کی طرف سے اور دوسرا مشرق کی طرف نکل جاتا اور بٹھنڈہ سے ہوتا ہوا دہلی جا نکلتا ۔بعد ازاں جب پنجاب کا بٹوارہ ہوا تو نارتھ ویسٹرن ریلوے بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ بٹھنڈہ کا راستہ معطل ہونے کے بعد منڈی صادق گنج سے اب صرف ایک ہی لائن امروکا اسٹیشن تک جاتی تھی جو پاکستان میں شامل ہو گیا تھا اور اب یہ لائن بھی اسی سرحدی قصبے یعنی امروکا تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی ، جہاں وہ اپنے سفر کا اختتام کر کے الٹے قدموں ایک بار پھربہاول نگر اور سمہ سٹہ کی طرف واپس چلی جاتی تھی۔

قیام پاکستان کے بعد بہاولنگر کوپنجاب کا ایک ضلع بنا کر علاقے کی پانچ تحصیلوں یعنی بہاولنگر، چشتیاں،فورٹ عباس، ہارون آباد اور منچن آباد کو اس سے منسلک کر دیا گیا ۔ اب یہاں ضلع کی سطح کے تمام سرکاری اور انتظامی دفاتر، سرکاری تعلیمی ادارے، کچہریاں، اور ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔یہاں تعلیم کا معیار کوئی ایسا قابل تعریف نہیں ہے اور شرح خواندگی تیس فی صد سے بھی کم ہے، کچھ اچھے نجی سکولوں اور کالجوں کے علاوہ یہاں ایک میڈیکل کالج زیر تعمیر ہے اوراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور ورچوئل یونیورسٹی نے اپنے کیمپس بھی کھولے ہوئے ہیں۔

پاکستان بننے کے بہت عرصےبعد تک سمہ سٹہ بہاولنگر والی لائن پر تین چار گاڑیاں روزانہ آتی جاتی تھیں، ایک دو تو امروکا کی طرف نکل جاتی تھیں اور دو وہاں کی برانچ لائن پر فورٹ عباس کی راہ پر چل پڑتی تھیں۔رفتہ رفتہ بہاول نگر سے امروکا جانے والی یہ لائن اپنی افادیت کھونے لگی تو مختصر سی اس پٹری کو مالی اور انتظامی طور پر نا قابل عمل قرار دے کر ستمبر 1993ءمیں مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔

یہ خود تو ڈوبی ہی تھی لیکن جاتے جاتے بہاولنگر سے فورٹ عباس جانے والی ایک بڑی برانچ لائن کو بھی ساتھ لے ڈوبی۔ عین اسی دن اُس کو بھی اُنھی وجوہات کی بناءپر بند کر دیا گیا۔ گویا ایک ہی دن میں دو برانچ لائنوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں کی چپ چاپ ہی موت واقع ہو گئی تھی۔جن کو تو ان لائنوں اور ان پر چلنے والی گاڑیوں سےمحبت تھی وہ تو دل مسوس کر رہ گئے، تاہم عام لوگوں نے اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر کوئی توجہ ہی نہ دی تھی۔

دو لائنیں یکے بعد دیگرے بند ہو جانے سے بہاول نگر جنکشن تو گویا یتیم ہی ہو گیا، اب اس کے سر سے جنکشن والا تاج بھی اتار دیا گیا اور وہ محض ایک عام سا ریلوے اسٹیشن ہی رہ گیا تھا۔ جس کا دل رکھنے کی خاطر کچھ عرصہ تک ایک گاڑی روزانہ سمہ سٹہ سے وہاں بھیجی جاتی تھی جو اس کا حال چال پوچھ کر لوٹ جاتی تھی۔ حالانکہ اس میں مسافر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ بارہ ڈبوں پر مشتمل اپنے وقتوں کی اس مقبول گاڑی میں اب صرف تین ڈبے ہی لگتے تھے اور یہ بھی محض ماضی کی ایک ریت نبھانے کی خاطر مختلف اسٹیشنوں پر رکتی ہوئی تین چار گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی۔ جب کہ وہاں جانے والے مسافروں نے بسوں اور ویگنوں میں بہت کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچنے کا رازپا لیا تھا۔ ویسے بھی ان علاقوں میں رہنے والے مقامی باشندوں کے مالی وسائل بہتر ہوتے چلے گئے، آمدنی میں اضافہ ہوا تو ہر گھر کی دہلیز پر ایک یا ایک سے زیادہ موٹر سائیکلیں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں۔ اب یہ سستی سواری ان کی اپنی تھی، جہاں بھی اور جب بھی جی چاہتا اس کی لگامیں تھامتے اور جہاں دل کرتا اسے لے جاتے۔ اب سفر اتنا سہل ہو گیا تھا کہ جہاں ریل گاڑی دو گھنٹے میں پہنچایا کرتی تھی وہاں اب دو چار دوست اکٹھے مل کر اپنی ذاتی موٹر سائیکلوں پر چائے پینے یا کھانا کھانے چلے جایا کرتے ہیں۔

اس ریل گاڑی کو بیوہ کر کے چھوڑ دیا گیا دو تین ڈبوں کی اس لنگڑی لولی گاڑی میں اب ایک تھکے ہوئے پرانے سے انجن، ڈرائیور اور گارڈ کے علاوہ چند ایک مسافر ہی ہوتے تھے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے وہ بھی غالباً ریل کے سفر کا لطف اٹھانے کے لیے اس میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر اب اس لائن کے بھی بند ہونے کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کیونکہ اس کے سوا اب اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔دراصل یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ساری ریلوے لائن کے متوازی ایک بڑی اور وسیع سڑک بھی دوڑی چلی جاتی ہے، جو تیز رفتار بسوں اور ویگنوں کی وجہ سے مسافروں کی اب پہلی ترجیح بن گئی تھی۔
اس سے پہلے ستمبر1993ء میں بہاول نگر سے فورٹ عباس اور امروکا ریلوے لائنوں پر گاڑیاں اپنا آخری پھیرا لگانے گئیں تھیں اور پھردوبارہ کبھی ادھر کا رخ ہی نہ کیا۔ رخصتی کے بعد ان علاقوں میں ریل کے ڈبوں کی کھڑکھڑاہٹ، پرانے وقتوں کے سٹیم انجنوں کی پھنکار، دلفریب سیٹیوں، اور چھک چھک کی مدھر آوازیں بھی ہمیشہ کے لیے حسین یادیں چھوڑ کر اپنے نہ بھولنے والے ماضی میں گم ہو گئیں تھیں۔

اس بچے کھچے اور اُدھڑتے ہوئے نظام کے اس بڑے حصے یعنی سمہ سٹہ بہاولنگر لائن کو کچھ دن تک تو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ، جس کے لیے ایک تھکی ہاری ڈھانچہ نما گاڑی کو دکھاوے کے لیے ان دونوں اسٹیشنوں کے بیچ ہانک دیا جاتا تھا مگر اس لائن کے بھی اب دن گنے جا چکے تھے اور اس کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا۔

یہ کچھ برس تک تو آخری ہچکیاں لیتی رہی اور قریب المرگ مریضوں کی طرح ہلکی چال سے چلتی رہی پھرایک دن یہ ناٹک بھی اس وقت ختم ہو گیا جب لوگوں نے اپنی گھڑیوں پر ایک نظر ڈالی اور پھردور دور تک خالی پٹری کو قدرے حیرانی سے دیکھا کہ وقت تو نکلا جا رہا تھا اور اس پٹری پر گاڑی کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔بہرکیف گاڑی کو آنا تھا نہ آئی۔یہ جولائی 2011ء کا ایک اداس اور مضطرب سا دن تھا-

تب ہی مقامی لوگوں کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ تاریخ کا یہ خوبصورت باب بھی اب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔ مسافر جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھے، اسٹیشنوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس ریلوے لائن کے پہلو میں رواں دواں سڑک پر بس اور ویگن والوں نے ریل گاڑی کی اس بندش پر بڑا جشن منایا ہو گا کہ بالآخر انھوں نے پہاڑ جیسے انجن اور اس کے پیچھے لگے ہوئے ڈبوں کو گھٹنوں کے بل گرا ہی لیا۔ جب سب کو یہ یقین ہو گیا کہ اب یہاں کوئی گاڑی نہیں آئے گی تو وہ سب کچھ بھول گئے ، اس گاڑی کی تاریخ بھی اور جغرافیہ بھی۔نئی نسل کے بچوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ یہاں کبھی ریل گاڑی نام کی کوئی چیز بھی ہوا کرتی تھی، انھوں نے اپنے گاؤں کے آس پاس بچھی ہوئی زنگ آلود فولادی پٹریوں کو تو ضرور دیکھا ہو گا مگر ان کی یادداشت میں ریل گاڑی کے حوالے سے شاید ہی کوئی شے محفوظ ہو۔

پھراس لائن کی مکمل تباہی کا دور شروع ہو گیا۔ لائن کے ساتھ ساتھ بسے ہوئے گاؤں کے باسیوں نے کچھ عرصے تک تو انتظار کیا اور جب دیکھا کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا، تو وہ بھی ہوشیارہو گئے اور انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اسٹیشنوں کے عملے کو ایک قبیح کاروبار میں حصہ دار بنایا اور اسٹیشن کی عمارت سے سامان اتار کر لے جانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے کھمبوں سے ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کی خالص تانبے کی تاریں کاٹ کر بیچ دی گئیں پھراسٹیشن کے فرنیچر کی باری آئی۔ حکومت یا محکمہ ریلوے کی طرف سے کوئی ردعمل نہ پا کر ان کے حوصلے بڑھ گئے تو انھوں نے بڑا ہاتھ مارا اور عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے بھی اتارے اور جا کر اپنے گھروں میں نصب کردیئے۔ بے حمیت لوگوں نے اسٹیشن اور دوسری عمارتوں سے اینٹیں اکھاڑیں اور اپنے نئے گھروں کی تعمیر شروع کر دی۔ شہتیروں کی جگہ پر لکڑی کے مضبوط سلیپر پٹری تلے سے کھینچ لیے گئے اور ان کی قطع برید کر کے اور جوڑ جاڑ کر ان پر اپنے گھروں کی چھتوں کا بوجھ ڈال دیا۔ پٹری کے فولادی گارڈروں کو بھی بیچ کر کچھ مال بنانے کا سوچا گیا، لیکن یہ مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور وزنی ہونے کے سبب یہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔

اب جگہ جگہ اسٹیشنوں کی یہ بھوت بنگلہ نما عمارتوں کے ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں اور گئے وقتوں کی سیکڑوں داستانیں سینے میں چھپائے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے تو اس سے یہ اپنا دکھ سکھ بیان کر سکیں۔ ان کھنڈرات کو بھی علم ہے کہ وہ بھی ایک وقت تھا جو گزر گیا اور اسے اب واپس نہیں آنا تھا، اس لیے اپنی شکست و ریخت کے اس عمل کو قبول کر کے وقت کے ساتھ انھیں بھی ایک دن مکمل فنا ہو جانا تھا۔

چند برس پہلے ایک پرجوش ریلوے وزیرکی طرف سے اس لائن کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جب ریلوے کے فیصلہ سازوں نے اس لائن پر قائم اسٹیشنوں اور تباہ شدہ نظام کے نقوش دیکھے تو انھوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور چپ رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ انھیں کیا خبر نہیں تھی کہ جب ہماری قوم کسی چیز کو تباہ کرنے پر تُل جاتی ہے تو پھراس کی باقیات بھی نظر نہیں آتیں، اب شاید یہ دوبارہ کبھی بن بھی نہ سکیں، اب اس نے بھی اپنی ہی طرح کی کئی اوربند برانچ لائنوں کی مانند چپ چاپ محکمہ ریلوے کا برسوں پرانا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور جس دن ان عمارتوں کی آخری اینٹ بھی گر گئی تو ان کی زندگی بھی ہمیشہ کے لیے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائے گی۔
 
انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 478 Articles with 298877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.