استحکام پاکستان کی جدوجہد ۔۔۔۔ کامیابیاں اور ناکامیاں

​پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا کالم 78 سالہ پاکستانی تاریخ کا ایک جامع اور حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ یہ تحریر پاکستان کے قیام کی عظیم قربانیوں سے لے کر موجودہ کمزوریوں تک کا احاطہ کرتی ہے، اور ہمیں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی راہ متعین کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ کالم نہ صرف ایک تاریخی جائزہ ہے، بلکہ ہر پاکستانی کے لیے خود احتسابی اور ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کا ایک واضح پیغام ہے۔ یہ تحریر ہمیں ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کے خواب کی تکمیل کے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
استحکام پاکستان کی جدوجہد ۔۔۔۔ کامیابیاں اور ناکامیاں

تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

14 اگست 2025ء کو ہم پاکستان کے 78 ویں یومِ آزادی کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ ہم ماضی کی طرف نگاہ ڈالیں، حال کا جائزہ لیں اور مستقبل کے لیے ایک روشن راہ اختیار کریں۔ 1947ء میں برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح رح کی بے مثال قیادت میں پاکستان حاصل کیا جوکہ علامہ اقبال رح کے خواب کی تعبیر ہے۔ یہ ایک ایسا وطن ہے جو اسلامی اصولوں پر مبنی منصفانہ، خودمختار اور فلاحی ریاست کے طور پر ابھرنے کے لیے معرض وجود میں آیا تاکہ یہاں مسلمان اپنی دینی، ثقافتی اور معاشی زندگی آزادانہ طور پر گزار سکیں جبکہ اقلیتوں کو بھی مکمل مذہبی اور شہری آزادیاں ملیں۔ یہ ترقی کا ایسا خواب خواب تھا جہاں ہر فرد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکے۔ وطن عزیز کے قیام کے بعد ہم نے کامیابیاں بھی حاصل کیں اور ناکامیاں بھی دیکھنی پڑیں۔ ہم پاکستان کی کامیابیوں اور کمزوریوں کا ایک متوازن تجزیہ پیش کریں گے تاکہ ہمیں احساس ہو کہ ہم اپنے کھوئے ہوئے خواب کو کیسے شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ تاریخی پس منظر میں ابتدائی چیلنجز پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزاتی عمل تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی اور ایک نئی ریاست وجود میں آئی۔ مگر آزادی کے صرف ایک سال بعد 1948ء میں قائداعظم کی وفات قوم کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ پھر 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا، جس نے قیادت کے تسلسل کو توڑ دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک کو ایک مضبوط بنیاد کی ضرورت تھی، مگر سیاسی انتشار نے جڑیں کمزور کر دیں۔ 1958ء میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا اور اگلے چار دہائیوں میں تقریباً 30 سال ملک فوجی حکومتوں کے زیرِ سایہ رہا۔ اس دوران پارلیمنٹ اور سیاسی ادارے پسِ پشت چلے گئے۔ آئین کو تین بار نافذ کیا گیا 1956ء، 1962ء اور 1973ء میں مگر ہر بار مارشل لا یا آئینی معطلی نے قانون کی بالادستی کو نقصان پہنچایا۔ یہ کمزوریاں محض سیاسی نہیں تھیں بلکہ قومی اتحاد کو بھی متاثر کرتی رہیں۔ پاکستان کی کمزوریاں اور ناکامیاں ہماری غلطیوں کا نتیجہ ہیں اور ان کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم ان سے سبق سیکھیں۔ سب سے بڑی کمزوری سیاسی عدم استحکام ہے۔ بار بار کی حکومتی تبدیلیاں، کرپشن اور اداروں کی کمزوری نے عوام کا سیاسی قیادتوں پر سے اعتماد کمزور کر دیا۔ عدالتی نظام میں مقدمات کے فیصلے اوسطاً 5 سے 10 سال تک لٹکتے رہتے ہیں، جس سے انصاف کی فراہمی ایک مذاق بن جاتی ہے۔ معاشی محاذ پر، 1960ء کی دہائی میں ہم نے 6.8 فیصد سالانہ شرحِ نمو حاصل کی مگر بعد کے ادوار میں سیاسی بحران، کرپشن، توانائی کی کمی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار نے معیشت کو کمزور کر دیا۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ بھی ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تعلیم کی بات کی جائے تو یونیسکو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں لیکن ہم انہیں تعلیم سے محروم رکھ کر قوم کی ترقی روک رہے ہیں۔ صحت کے میدان میں صورتِ حال اور بھی تشویشناک ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے۔ سماجی سطح پر فرقہ واریت اور صوبائی تعصبات نے قومی اتحاد کو کمزور کیا۔ یہ کمزوریاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ سیاسی بحران معیشت کو متاثر کرتا ہے، جو تعلیم اور صحت پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ سب مل کر قومی ترقی کے راستے میں حائل ہوتے ہیں۔ یہ سب ناکامیاں ہماری غلطیوں کا نتیجہ ہیں اور مخلصانہ کوششوں سے اصلاح ممکن ہے۔ اس سب کے باوجود گزشتہ 78 سالوں میں پاکستان کی کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں جو ہمیں روشن مستقبل کی امید دلاتی ہیں۔ دفاعی محاذ پر، 1965ء کی جنگ میں قوم نے یکجہتی کی شاندار مثال پیش کی، جب عوام اور فوج نے مل کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ 1998ء میں چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کر کے ہم مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنے، جو ہماری سائنسی اور دفاعی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ سپورٹس میں ہماری کامیابیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ، ہاکی کے چار عالمی کپ اور اسکواش میں مسلسل فتوحات نے پاکستان کا نام روشن کیا۔ یہ کامیابیاں ہمارے قومی عزم کی عکاس ہیں۔ سفارتی سطح پر 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی نے پاکستان کو مسلم دنیا کا مرکز و محور بنایا۔ انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی میں، موٹرویز، گوادر پورٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے خطے کو تبدیل کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل جیسے کوئلہ، گیس اور معدنیات اور ہمارے پرجوش نوجوان ہماری طاقت ہیں۔ پاکستان کی ناکامیاں اور کامیابیاں ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ کمزوریاں ہماری سیاسی اور سماجی غلطیوں سے جنم لیتی ہیں، جیسے کرپشن اور اتحاد کی کمی ہماری ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ مگر کامیابیاں ہمارے عزم، صلاحیت اور نظریے کی یاد دلاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جہاں تعلیم کی کمی ایک کمزوری ہے، وہیں ہمارے سائنس دانوں نے ایٹمی پروگرام جیسے عقل کو حیرت میں ڈال دینے والے کارنامے کر دکھائے۔ اگر ہم ناکامیوں کو کامیابیوں کی روشنی میں دیکھیں، تو اصلاح آسان ہو جاتی ہے۔ استحکامِ پاکستان کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، شفاف انتخابات اور جمہوری اداروں کو مضبوط کریں۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس نیٹ کلچرکو فروغ دیں۔ زراعت اور صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کریں اور برآمدات پر توجہ دیں۔ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لئے قومی نصاب نافذ کریں، ہنر مندی کے مراکز قائم کریں اور ہر بچے کو اسکول پہنچائیں۔ صحت کی بنیادی سہولیات کو ہر گاؤں تک پہنچائیں اور جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد صحت پر خرچ کریں۔ عدالتی اصلاحات سے انصاف کا نظام شفاف اور تیز کریں اور کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنائیں۔ یاد رکھیں، پاکستان کی بنیادیں ایک عظیم نظریے پر رکھی گئی تھیں۔ اگر ہم اس نظریے کو اپنی زندگی کا محور بنائیں، تو سیاست میں شرافت، معیشت میں دیانت اور معاشرت میں اخوت پیدا ہو گی۔ قائداعظم کے الفاظ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں: "کام، کام اور بس کام، انتھک محنت اور مستقل مزاجی ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔" ہمارے پاس مضبوط سرحدیں، محنتی اور پرجوش نوجوان، قدرتی وسائل اور عظیم دفاعی صلاحیت ہے۔ ہمیں عزم، اتحاد اور ایک طویل المدتی وژن کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ماضی سے سبق سیکھیں، دیانت دار قیادت کو آگے لائیں اور قانون کی بالادستی قائم کریں، تو استحکامِ پاکستان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔ آئیے، مل کر دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان نہ صرف اپنے کھوئے ہوئے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے بلکہ ایک عظیم قوم بن کر دنیا کی قیادت بھی کر سکتا ہے! پاکستان زندہ باد!
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 228 Articles with 270917 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More