امریکہ اور عالم ِاسلام

سُنا ہے کہ پاکستان میں صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ہیلری کلنٹن نے بھی یہی بات دہرائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ دو ارب سالانہ بھیک لینے کے باوجود ان پاکستانی بھکاریوں کی امریکہ سے نفرت سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ ”پاکستان کی ساس “ جب بھی پاکستان آتی ہے ، یہ طعنہ ضرور دیتی ہے۔جواباََ شریر لوگ کہتے ہیں کہ دو ارب ڈالر کے بدلے میں ہم سالانہ دس ارب ڈالراور ہزاروں لوگ ان کی جنگ میںجھونک دیتے ہیں۔ ا مریکہ ہما ری جان چھوڑ دے ہم چار ارب سالانہ ”بھتہ “ دینے کو تیار ہیں ۔پھر بھی سودا مہنگانہیں کہ سکون کے چند پل تو نصیب ہو جائیں گے۔ویسے بھی یہ دو ارب ڈالرکونسے پاکستانی عوام کو ملتے ہیں۔ کچھ تو امریکہ خود ہی واپس لے جاتا ہے اور بچے کھچے ڈالروں سے راہبرانِ قوم کے چولہے جلتے ہیں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر سارے ٹیکس گارپورا ٹیکس ادا کرنے لگیں تو پھر اس امریکی بھیک کی سرے سے ضرورت ہی نہ رہے۔یہی بات جب میں نے ایک ٹیکس گزار سے کہی تو اس نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا ”تم تو پیدائشی احمق ہو ، میں نہیں“ ۔ میں نے چڑ کر پوچھا ”کیا مطلب“؟۔ ۔۔۔۔ تو اس نے یہ کہتے ہوئے مجھے لا جواب کر دیاکہ ”اگر قوم پورا ٹیکس بھی ادا کرنے لگے تو پھر بھی قوم کی حالت تو نہیں بدلے گی البتہ سوئس بینکوں میں پانچ سو ارب ڈالر کی جگہ ، پانچ سو کھرب ضرور جمع ہو جائیں گے“ ۔ گویا یہ طے ہوا کہ جو ، جیسا اور جہاں ہے اسے ویسا ہی رہنے دیا جائے کہ اسے چھیڑنے اور امریکہ کو چھوڑنے سے مزید خرابیوں کا احتمال ہے۔اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہیلری ہی نہیں ، میری بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہم امریکہ سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟۔ میں تو خیر پہلے بھی مخدومی و معظمی امریکہ کو اپنا مربی و محسن تصّور کرتی تھی لیکن کچھ شرپسند بس ”ایویں ای“ شور مچاتے رہتے ہیں۔یہ وہی شر پسند ہیں جو امریکہ کو ”منصفِ اعلیٰ “ کی بجائے ”عالمی بدمعاش“ کہتے ہیں۔وہ بیچارہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے عالمِ اسلام کوآمروں سے نجات دلوانے میں مگن ہے لیکن ہم نا سپاسی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ اس نے عراق ، افغانستان ، مصر اور اب لیبیا کو بھی آمروں سے پاک کر دیا ۔ کوئی دن جاتا ہے جب یمن اور شام بھی پاک ہو جائیں گے۔ایران کا نمبر تو خیر لگ ہی چُکا ہے لیکن سعودی عرب اور پاکستان میں سے کس کی باری پہلے آئے گی ؟ یہ ابھی طے نہیں ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ سعودی عرب کا نمبر پہلے لگے گا کیونکہ ایک تو امریکہ پاکستان کا پڑوسی ہے اس لئے جب جی چاہے گا ”گند“ صاف کر دے گا ۔دوسرے پاکستانی راہبروں اور دانشوروں کی ایک کثیر تعداد پہلے ہی ”عشقِ امریکہ“ میں گرفتار ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہمہ وقت و ہمہ دم قوم کو ”بے غیرتی “ نامی حسینہ دلربا کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کرنے کے لئے تن من لگائے بیٹھے ہیں۔دھن میں نے اس لئے نہیں لکھا کہ اسی ”امریکی دھن“ کی خاطر تو وہ اتنے پاپڑ بیل رہے ہیں۔جوں ہی ان ” عاشقان “ کی جانب سے ”گرین سگنل“ موصول ہوا امریکہ ”غیرت گروپ“ کے مٹھی بھر شر پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لئے چھم سے آ جائے گا۔آمریت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا اور سلطانی جمہور کا علمبردار پرویز مشرف ہاتھ میں علمِ جمہوریت تھامے ہماری راہبری و راہنمائی کے لئے آن پہنچے گا ۔اس کے بعد راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔۔۔۔

عالمی امن کے محافظ امریکہ کی ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ضیاءالحق کا طیارہ فضاؤں میں بکھیر دیا گیا کہ اُس کے اندر بغاوت کے جراثیم تیزی سے پرورش پا رہے تھے ۔ ایوب خاں نے ”Friends, not master “ لکھ کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور امریکہ نے فوراََ یحییٰ کو گود لے لیاجس نے اقتدار پر قبضہ جمانے سے بہت پہلے نیو یارک میں نشہ میں دھت ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ ”I , will be he next president of Pakistan“ ۔ذوالفقار علی بھٹو کا جرم تو خیر تھا ہی ناقابلِ معافی کہ ”ایک معمولی اسلامی ملک اور ایٹمی طاقت کے خواب؟۔۔۔۔۔۔ ”چہ پدّی اور چہ پدّی کا شوربہ“ ۔اُن کا نشانِ عبرت بننا تو روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔نواز شریف کو بھی بل کلنٹن نے بہت سمجھایا تھا لیکن ضدی نواز شریف نہ مانے ۔ان کا انجام بھی اسی دن طے کر دیا گیا ۔وہ تو سعودی شاہ اپنی ضد پر اڑ گئے وگرنہ آج ہم ایک اور ”شہید“ کی بڑے اہتمام سے برسیاں اور سالگرہیں منا رہے ہوتے۔شاہ فیصل ، صدام حسین ، اسامہ بن لادن اور معمر قذافی کے جرائم کی فہرست بھی بہت طویل ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن بی بی بے نظیر شہید کا کیا قصور تھا؟ ۔ خیر کچھ نہ کچھ تو ہو گا ہی وگرنہ ر حم دل امریکہ کسی پر کبھی زیادتی نہیں کرتا۔خبث باطن رکھنے والے لوگ یقیناََ مجھ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنی کتھا ہیرو شیمااور ناگا ساکی سے شروع کرکے ویت نام ، کمبوڈیا ، ایران اور عراق سے ہوتے ہوئے افغانستان تک آن پہنچیں گے۔درمیان میں ڈرون حملوں کا ”تڑکا“ بھی ضرور لگائیں گے۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا ”شر“ کو ختم کرکے امریکہ نے کوئی جرم کیا ہے؟۔سارا امریکہ شر پسندی سے باز آنے کی دہا ئی دیتا رہتا ہے لیکن کوئی سننے کو تیار ہی نہیں۔ پھر بیچارہ امریکہ لاکھوں کروڑوں بندے نہ ”پھڑکائے“ تو کیا دنیا کو ایسے ہی چھوڑ دے۔؟
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642867 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More