انسان اپنی تباہی کا خود ذمہ دار ہے

فطرت اندھی طاقت رکھتی ہے۔ پانی کو نہ نیکی کا پتہ ہے نہ گناہ کا۔ دریا بہتا ہے تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑ دیتا ہے، چاہے وہ کسی غریب کی کچی جھونپڑی ہو یا کسی رئیس کی حویلی۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
قدرتی آفات ہمیشہ سے انسانی زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ کبھی سیلاب کی صورت میں، کبھی زلزلے، طوفان یا قحط کی شکل میں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے ہر آفت کو "عذاب" کا لیبل دے کر اخلاقیات کی عینک سے دیکھنے کی عادت بنا لی ہے۔ گویا زلزلہ آئے تو یہ صرف گناہوں کی سزا ہے، بارش تباہ کرے تو یہ صرف بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سوچ دراصل سب سے بڑا عذاب ہے۔
سچ یہ ہے کہ فطرت اندھی طاقت رکھتی ہے۔ پانی کو نہ نیکی کا پتہ ہے نہ گناہ کا۔ دریا بہتا ہے تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑ دیتا ہے، چاہے وہ کسی غریب کی کچی جھونپڑی ہو یا کسی رئیس کی حویلی۔ اگر آفات صرف گناہ کی سزا ہوتیں تو دنیا کے سب سے بڑے جوا خانوں اور قحبہ خانوں کو کب کا آسمانی بجلی جلا چکی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ فطرت مذہبی یا اخلاقی تقسیم نہیں جانتی، وہ صرف قوانینِ فطرت پر عمل کرتی ہے۔
فرق یہ ہے کہ کہیں انسان نے عقل اور سسٹم کو اپنایا، اور کہیں جہالت اور تقدیر پر انحصار کیا۔ جاپان میں زلزلہ آتا ہے تو عمارتیں قائم رہتی ہیں کیونکہ انہوں نے سائنس کو سمجھا، نظام بنایا، مکانات اور انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا۔ ہمارے ہاں بارش آتی ہے تو گاؤں بہہ جاتے ہیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ پل، ڈیم اور پختہ مکانات بنانے کے بجائے تقدیر، دعا اور تعویذ پر انحصار کیا۔
اصل عذاب یہ ہے کہ ہم اپنی نالائقی، کرپشن اور بدانتظامی کو "الٰہی غضب" کا پردہ بنا دیتے ہیں۔ اشرافیہ اپنی تجوریاں بھرتی ہے، غریب کے ملبے پر قہقہے لگتے ہیں، ننگے سر بیٹیوں کے خوار ہونے پر تالیاں بجائی جاتی ہیں، اور جاہل عوام کو مذہب و تقدیر کے نام پر صبر کی تلقین کر کے مزید غلامی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
یہ تصویر جس میں دریا کے بیچ میں بنی عمارتیں سیلاب کے ریلے میں بہہ چکی ہیں، دراصل ہماری اجتماعی حماقت کی علامت ہے۔ ہم نے قدرت کے اصولوں کو چیلنج کیا، پانی کے راستے پر گھر بنائے بازاروں کی تعمیرات کیں، اور پھر جب وہی پانی اپنے قدرتی حق کی بازیافت کرتا ہے تو ہم چیخنے لگتے ہیں کہ یہ "عذاب" ہے۔ نہیں! یہ عذاب نہیں، یہ ہماری جہالت کا بل ہے جو ہمیں ہر بار چکانا پڑتا ہے۔
اگر ہم واقعی ان آفات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو محض دعا اور تقدیر پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر انحصار کرنا ہوگا، جس کیلئے کچھ تجاویز ہیں!
1. جامع منصوبہ بندی: دریاؤں اور برساتی نالوں کے کنارے تعمیرات پر مکمل پابندی اور پرانی آبادیوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی۔
2. ڈیم اور واٹر مینجمنٹ: چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر، پانی کے محفوظ استعمال اور سیلابی ریلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جدید نظام۔
3. زلزلہ اور سیلاب ریزسٹنٹ تعمیرات: گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے دوران بین الاقوامی ماڈلز سے رہنمائی۔
4. ایمرجنسی سسٹم: جدید وارننگ سسٹم اور مقامی حکومتوں کی تربیت تاکہ بروقت انخلا ممکن ہو سکے۔
5. عوامی شعور: میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے یہ پیغام دینا کہ آفات صرف عذاب نہیں بلکہ سائنسی و انتظامی حقیقت ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے عقل اور منصوبہ بندی ضروری ہے۔
اصل عذاب بارش یا زلزلہ نہیں، اصل عذاب یہ ہے کہ ہم سیکھنے اور بدلنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم نے اپنی سوچ اور نظام نہ بدلا تو یہ اندھی طاقتیں ہمیں بار بار روندتی رہیں گی، اور ہم اپنی کمزوریوں کو تقدیر پر تھوپتے رہیں گے لہٰذا خود کو بدلنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 152 Articles with 90955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.