برصغیر کی پہلی "ٹھنڈی AC ٹرین" کی کہانی
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
یکم ستمبر 1928ء کو متحدہ ہندوستان میں پہلی بار ٹھنڈی سہولت سے آراستہ "فرنٹیئر میل" متعارف کرائی گئی، جو بمبئی سے پشاور تک چلتی تھی۔ یہ ٹرین محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ جدید تقاضوں اور ریلوے کی بڑھتی اہمیت کو ظاہر کرتی تھی۔ |
|
|
"فضل خالق خان (مینگورہ سوات) ریلوے کی تاریخ صرف پٹڑیوں اور انجنوں تک محدود نہیں بلکہ یہ معاشرتی، سیاسی اور معاشی تغیرات کی آئینہ دار بھی ہے۔ برصغیر میں ریلوے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں ہوا، لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں جب دنیا تیزی سے جدیدیت کی جانب بڑھ رہی تھی تو ہندوستانی ریلوے نے بھی نئی جدتوں کو اپنانا شروع کیا۔ انہی جدتوں میں سب سے نمایاں "اے سی ٹرین" کا آغاز تھا، جو اپنے وقت کی ایک انقلابی پیش رفت کہی جا سکتی ہے۔ یکم ستمبر 1928ء کو متحدہ ہندوستان میں پہلی بار "فرنٹیئر میل" (Frontier Mail) متعارف کرائی گئی، جو بمبئی (آج کا ممبئی) سے پشاور تک چلتی تھی۔ یہ ٹرین محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ ایک علامت تھی جو اس وقت کی برطانوی حکومت کے جدید تقاضوں اور ریلوے کی بڑھتی اہمیت کو ظاہر کرتی تھی۔ ابتدائی طور پر اس ٹرین کو "پنجاب میل" بھی کہا گیا لیکن بعد میں اسے "فرنٹیئر میل" کے نام سے شہرت ملی۔ یہ ٹرین انگریز افسران اور امیر طبقے کے لیے ایک پرکشش سہولت تھی۔ اس کی بوگیوں میں پہلی بار "ایئر کنڈیشنڈ" سہولت شامل کی گئی، مگر یہ سہولت آج کے جدید مشینی اے سی جیسی نہیں تھی۔ آج کے دور میں جب ہم ایئر کنڈیشنڈ کا لفظ سنتے ہیں تو ذہن میں برقی مشینری والا نظام آتا ہے، مگر 1928ء میں یہ سہولت دراصل ایک "آئس کولنگ سسٹم" پر مبنی تھی۔ بوگیوں کے فرش کے نیچے بڑے بڑے برف کے خانے بنائے جاتے جن میں برف کے بلاکس رکھے جاتے۔ جیسے ہی پنکھوں کے ذریعے اس برف سے ٹھنڈی ہوا اندر پھینکی جاتی، پوری بوگی ٹھنڈی ہو جاتی۔ طویل سفر کے دوران مختلف اسٹیشنوں پر برف دوبارہ بھری جاتی تاکہ سفر کے اختتام تک ٹھنڈک قائم رہے۔ یہ طریقہ گرمی کے موسم میں ایک بڑی سہولت تھی اور اس وقت کے مسافروں کے لیے کسی "لگژری ہوٹل" سے کم نہ تھا۔ فرنٹیئر میل میں دو بڑی کلاسز موجود تھیں، فرسٹ کلاس بوگیاں جو صرف انگریز افسران اور اعلیٰ حکام کے لیے مخصوص تھیں جہاں برف سے ٹھنڈی اے سی سہولت میسر تھی۔ سیکنڈ اور تھرڈ کلاس بوگیاں: عام ہندوستانیوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں جہاں ایسی کوئی سہولت نہیں تھی اور مسافر شدید گرمی میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ یہی وہ تقسیم تھی جو اس وقت کے برصغیر کی سماجی اور سیاسی حقیقت کو بھی اجاگر کرتی تھی۔ فرنٹیئر میل کا ابتدائی روٹ یہ تھا، بمبئی سے دہلی، بٹھنڈہ، فیروزپور، لاہور تا پشاور۔ 1930ء کے بعد اس میں تبدیلی کی گئی اور نیا روٹ کچھ یوں بنا بمبئی سے سہارنپور، انبالہ، امرتسر، لاہور تا پشاور۔ یہ ٹرین اس وقت تقریباً 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی تھی، جو برصغیر کے حساب سے ایک شاندار ریکارڈ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے اس زمانے کی "لگژری ٹرین" کہا جاتا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں بھی اس قسم کی برف سے ٹھنڈی بوگیوں کا استعمال جاری رہا۔ سندھ کے شکارپور ریلوے اسٹیشن پر برطانوی فوج کا ایک بڑا ڈیری فارم تھا۔ یہاں سے دودھ اور مکھن انہی برف والے ڈبوں والی بوگیوں میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں تک بھیجا جاتا۔ اسی طرح چمن ریلوے اسٹیشن کے ذریعے افغانستان سے آنے والے تازہ پھل بھی برف سے ٹھنڈی بوگیوں میں کراچی اور اندرون ملک پہنچائے جاتے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برف سے ٹھنڈی بوگیاں صرف مسافروں کے لیے نہیں بلکہ سامان کی ترسیل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی رہیں۔ اس حوالے سے کچھ تاریخی حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں Gazetteer of Sindh, Sukkur District گریٹ انڈین پیننسولر ریلوے (GIPR) کے پرانے ریکارڈز معاصر اخبارات اور برطانوی عہد کے ریلوے ٹائم ٹیبلز "گرانڈ اولی ٹائم" اور برصغیر کی ریلوے تاریخ پر مبنی تحقیقی کتب۔ قصہ مختصر فرنٹیئر میل اور برف سے ٹھنڈی اے سی بوگیاں برصغیر کی ریلوے تاریخ کا وہ باب ہیں جو نہ صرف ٹیکنالوجی کی جدت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس دور کی سماجی تقسیم اور برطانوی حکمت عملی کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ آج جب ہم جدید اے سی ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی بنیاد نوے سال پہلے انہی برف بھرے ڈبوں نے رکھی تھی۔ |
|