سایہ
(Babar Alyas , Chichawatni)
سایہ تحریر ۔۔۔۔ بابرالیاس
شام کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ گلی کے نکڑ پر جلتا بلب جھپک جھپک کر بجھنے کو تھا۔ پرندوں کے جھنڈ شور مچاتے ہوئے واپس گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔ ہوا میں نمی اور تھکن کی ملی جلی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
اسی لمحے محلے کے ایک بوسیدہ درخت کے نیچے ایک منظر اپنی پوری شدت کے ساتھ رقم ہو رہا تھا۔ ایک جوان بیٹا، تھکن سے چور، اپنے باپ سے لپٹ کر روتا جا رہا تھا۔ وہ سڑک سے سیدھا آیا تھا، جوتے گرد سے اٹے ہوئے، سانسیں بکھری ہوئی۔
باپ نے چونک کر بیٹے کو دیکھا اور کہا: "کیا ہوا بیٹے؟ کون سا دکھ اتنا بڑا ہے کہ میری چوکھٹ پر آتے ہی ٹوٹ گئے ہو؟"
بیٹے نے ہچکیوں کے درمیان کہا: "ابا جی… یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔ محنت کے باوجود عزت نہیں ملتی، سچائی کے باوجود الزام سہنے پڑتے ہیں، اور دوستوں کے درمیان بھی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ میں ہار گیا ہوں ابا جی، میں تھک گیا ہوں۔"
باپ نے آہ بھری، لیکن اس کے چہرے پر مضبوطی کی لکیر نمایاں رہی۔ وہ بیٹے کے کندھے تھام کر بولا: "سن بیٹے، دنیا واقعی سخت ہے، مگر انسان کی اصل پہچان اسی میں ہوتی ہے کہ وہ حالات کے آگے جھکنے کی بجائے کھڑا رہے۔ اگر تو تھک جائے گا تو کون آگے بڑھے گا؟"
بیٹے نے اشکوں کے درمیان سوال کیا: "لیکن ابا جی، کب تک لڑنا ہے؟ کب تک سہنا ہے؟"
باپ نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں مغرب کی اذان کی صدا بلند ہو رہی تھی، اور بولا: "جب تک سانس ہے بیٹے…! یہ جدوجہد ہی زندگی ہے۔ آنسو کمزوری نہیں، روشنی کا ذریعہ ہیں۔ بس یاد رکھنا، ہارنے والا وہی ہے جو کوشش چھوڑ دے۔"
بیٹے نے سر جھکایا، مگر اس کے آنسو دھیرے دھیرے تھم گئے۔ اس نے محسوس کیا جیسے باپ کے سینے سے لپٹتے ہی اس کے اندر ایک نیا حوصلہ جنم لے رہا ہو۔
شام کی تاریکی میں وہ دونوں ایک ساتھ گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ گلی کے بلب کی ٹمٹماتی روشنی جیسے ان کے قدموں کو راستہ دکھا رہی تھی۔
|
|