خیبر پختونخوا کا ترقیاتی پروگرام: مزید 165 ارب کا قرض، عوامی ترجیحات کہاں؟



پہلے ہی 800 ارب روپے کا مقروض خیبر پختونخوا حکومت رواں مالی سال 2025-26 میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مزید 165 ارب روپے کا قرض لے گی۔ صوبائی حکومت کے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں غیر ملکی امداد کی مد میں 177 ارب روپے شامل ہیں، جن میں سے صرف 11.65 ارب گرانٹس ہیں جبکہ باقی تمام خطیر رقم قرضوں پر مشتمل ہے۔یہ صورتحال کئی سنگین سوالات اٹھاتی ہے کہ صوبہ قرضوں کے اس جال میں کب تک پھنسا رہے گا اور کیا واقعی یہ خطیر رقم عوامی ترقی کے لئے استعمال ہوگی یا ماضی کی طرح محض کاغذی اعداد و شمار میں دب کر رہ جائے گی؟

دستاویزات کے مطابق سب سے بڑا حصہ دو بڑے مالیاتی اداروں کے پاس ہے: ورلڈ بینک: 81.4 ارب روپے (کل غیر ملکی امداد کا 46 فیصد) ایشیائی ترقیاتی بینک: 72 ارب روپے (41 فیصد) یعنی کل غیر ملکی امداد کا تقریباً 87 فیصد صرف انہی دو اداروں کے قرضوں پر مبنی ہے۔ باقی چند ارب روپے دیگر ممالک یا اداروں کی جانب سے آئے ہیں، مثلاً جاپانی حکومت، یو ایس ایڈ، آئی ایف اے ڈی وغیرہ۔ یہ واضح ہے کہ صوبے کا ترقیاتی ڈھانچہ آزاد گرانٹس پر نہیں بلکہ قرضوں پر کھڑا ہے، اور ان قرضوں کی واپسی سود سمیت آئندہ نسلوں کو کرنا ہوگی۔ ترقیاتی پروگرام کے مطابق 52 منصوبوں کیلئے یہ غیر ملکی امداد استعمال ہوگی۔ ذیل میں ہر سیکٹر کی تفصیل دی جا رہی ہے:

سڑکیں: 51.25 ارب روپے (کل رقم کا 29 فیصد) توانائی و بجلی: 24.36 ارب روپے (14 فیصد) صحت: 20.32 ارب روپے (11 فیصد) شہری ترقی: 19.02 ارب روپے (11 فیصد) کثیر شعبہ جاتی ترقی: 15.57 ارب روپے (9 فیصد) فنانس: 13.49 ارب روپے (7.6 فیصد) پانی: 10.02 ارب روپے (5.7 فیصد) زراعت: 5.61 ارب روپے (3.2 فیصد) تعلیم (ای اینڈ ایس ای): 5.3 ارب روپے (3 فیصد) سیاحت: 8.4 ارب روپے (4.7 فیصد) جنگلات: 0.70 ارب روپے (0.4 فیصد) صنعت: 0.30 ارب روپے (0.2 فیصد) مقامی حکومت: 0.20 ارب روپے (0.1 فیصد) ایس ٹی اینڈ آئی ٹی: 0.084 ارب روپے (0.05 فیصد) دیگر (ایل ایس ڈی ڈی وغیرہ): صفر یا انتہائی معمولی

اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ رقم سڑکوں پر خرچ ہوگی، جبکہ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبے پیچھے ہیں۔ خیبر پختونخوا جیسے صوبے میں جہاں بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے، وہاں ترجیحات کا یہ توازن بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔صحت کو 20 ارب اور تعلیم کو صرف 5 ارب روپے ملنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی ترقی کے بجائے انفراسٹرکچر کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ زراعت اور جنگلات پر معمولی رقم رکھی گئی ہے حالانکہ صوبے کی بڑی آبادی انہی پر انحصار کرتی ہے۔ ماحولیاتی چیلنجز کے دور میں جنگلات کو محض 0.4 فیصد دینا خطرناک ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جب صوبہ پہلے ہی 800 ارب روپے کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے تو مزید 165 ارب کا بوجھ کس طرح سنبھالا جائے گا؟ ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے آنے والے برسوں میں صوبے کو اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ سے بڑی کٹوتیاں کرنی پڑ سکتی ہیں۔مزید یہ کہ اگر یہ رقم عوامی فلاحی منصوبوں کے بجائے صرف ٹھیکوں، تاخیر زدہ منصوبوں اور ناقص منصوبہ بندی میں ضائع ہوئی تو آنے والے وقت میں اس کا نقصان دوہرا ہوگا: قرض بھی چکانا پڑے گا اور عوامی مسائل بھی جوں کے توں رہیں گے۔

خیبر پختونخوا کا موجودہ ترقیاتی پروگرام بظاہر ایک بڑا مالیاتی پیکج دکھائی دیتا ہے، مگر اس کی بنیاد قرضوں پر ہے۔ سڑکوں اور توانائی کے منصوبے اپنی جگہ اہم سہی، لیکن تعلیم، صحت، زراعت اور ماحولیاتی تحفظ کو کم اہمیت دینا ایک بڑی پالیسی کمزوری ہے۔اگر صوبہ اسی انداز میں قرضوں پر انحصار کرتا رہا تو ترقی کی رفتار شاید وقتی طور پر دکھائی دے، مگر مستقبل میں اس کا بوجھ عوام کو مزید غربت، مہنگائی اور بنیادی سہولتوں کی کمی کی شکل میں سہنا ہوگا۔

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 790 Articles with 655795 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More