درخت کٹ گئے، گھر اُجڑ گئے
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر پاکستان۔ ایک ایسی سرزمین جو قدرتی حسن اور دریاؤں کی روانی سے مالامال ہے۔ لیکن یہی ندیاں اور دریا جب بے قابو ہو جائیں تو اپنے ساتھ تباہی کا وہ طوفان لاتے ہیں جو صدیوں تک یاد رہتا ہے۔ پاکستان۔۔ ایک ایسی سرزمین جو برف پوش پہاڑوں سے لے کر لہلہاتے کھیتوں تک اپنی خوبصورتی کا جادو بکھیرتی ہے۔یہ دھرتی جہاں دریا زندگی کے گیت گاتے ہیں، جہاں ہوا میں خوشبو بسی ہے، جہاں زمین اپنی بانہوں میں زرخیزی سمیٹے کھڑی ہے۔یہ ندیاں اور دریاکبھی سکون کے ترانے سناتے ہیں، کبھی فصلوں کو زندگی بخشتے ہیں، کبھی پیاس بجھاتے ہیں اور کبھی محبت کے رشتے جوڑتے ہیں۔لیکن یہی دریا جب بے قابو ہو جائیں تو اپنی موجوں میں قیامت چھپا لیتے ہیں۔یہ شفیق ماں کی طرح سینے سے لگانے والے دریا اچانک غضبناک دشمن کی مانند کوڑے برسانے لگتے ہیں۔پانی کا یہ طوفان صرف گھروں کی دیواریں نہیں گراتا۔۔ ہریالی کو بہا لے جاتا ہے، ماں کی گود خالی کر دیتا ہے، بچوں کی مسکراہٹیں چھین لیتا ہے۔اور پھر جب پانی کی لہریں پیچھے ہٹتی ہیں، تو زمین پر فقط آنسوؤں کے نشانات رہ جاتے ہیں۔ویرانی، اداسی اور خاموشی۔۔ جو صدیوں تک دلوں پر نقش رہتی ہے۔یہی ہے پاکستان کی کہانی۔۔ جہاں حسن اور تباہی ایک ہی دھارے میں بہتے ہیں۔جہاں دریا زندگی بھی دیتے ہیں اور امتحان بھی لیتے ہیں۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں آنے والا سیلاب، 1992 میں پنجاب کے میدانوں میں تباہی اور 2010 کا وہ بدترین سیلاب۔۔ جس نے دو کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کو متاثر کیا۔ یہ تاریخ ہمیں بار بار خبردار کرتی رہی ہے کہ اگر ہم نے اپنی زمین اور فطرت کے ساتھ بے رحمی کی تو فطرت ہمیں معاف نہیں کرے گی۔مگر افسوس ہم ماضی کو صرف کہانیوں میں سنانے کے لئے یاد رکھتے ہیں۔اِس سے سیکھتے کچھ نہیں۔جانتے بھی ہیں سمجھتے بھی ہیں پھر بھی تعجب ہے کہ درخت کاٹ د یتے ہیں۔۔ وہ درخت جو ہمارے صدیوں کے محافظ ہیں۔ہم نے پہاڑوں کو ننگا کر دیا۔۔ وہ پہاڑ جو اپنی سبز چادروں سے بارش کے پانی کو روک کر زمین کے پیاسے ذروں میں اتارتے تھے۔ہم نے ندی نالوں کے راستے پر گھر اور کالونیاں بسا دیں اور فطرت کے راستے بند کر دیے۔کیا ہم نے کبھی سوچا؟جب درخت ختم ہو جاتے ہیں تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہوتا۔ یہ پانی زمین کے بجائے انسانوں کی بسنے والی بستیوں، گلی کوچوں میں راستہ بنا لیتا ہے۔ اور یوں بستیاں ڈوب جاتی ہیں، خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔سب سے پہلے معصوم بچے، بے بس عورتیں، اور کمزور بزرگ اس کی زد میں آتے ہیں۔چند لمحوں کی بارش اور برسوں کی کمائی ہی نہیں کئی جانیں مٹی میں مٹی ہو جاتی ہیں۔ ناجانے ہم کب سمجھیں گے کہ درخت صرف سایہ دینے والی شاخیں نہیں ہوتے، یہ ہمارے ماحول کی ڈھال ہیں۔پانی کے قدرتی راستوں پر گھر بنانا صرف سیلاب کی تباہ کاریوں کو بڑھاتا ہی نہیں، بلکہ آبی آلودگی کو بھی جنم دیتا ہے۔گندہ پانی، بند نالے، اور کچرے سے بھری گلیاں۔۔ یہ سب مل کر سیلاب کو کئی گنا خطرناک بنا دیتے ہیں۔سرسبز و شاداب درخت ہوا کو صاف کرتے ہیں، زمین کو زرخیز بناتے ہیں، پرندوں کا گھر اور انسان کا سہارا بنتے ہیں۔لیکن جب یہ سبز دیواریں ہم نے خود گرا دیں تو گرمیاں آگ نہیں تو بھلا کیا پھول برسائیں گی؟، بارشوں کے طوفان سے زمین بنجر نہیں ہوں گی تو کیا بھلا سونا اُگلیں گی۔ سوچئے… جہاں کبھی پرندوں کی چہچہاہٹ گونجتی تھی، آج وہاں سناٹا ہے۔جہاں سبزہ لہراتا تھا، آج وہاں اُڑتی ہوئی مٹی چہروں کو گردآلود کر رہی ہے۔ اور جب بارش آتی ہے تو وہ زمین کو زندگی دینے کے بجائے موت کا پیغام بن جاتی ہے۔ یہی درخت ہمارے مستقبل کا سہارا تھے،جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے نہیں کاٹابلکہ اپنے سہارا بننے والے ہاتھوں کو کاٹ ڈالاہے۔ٹی وی،سوشل میڈیا پرٹوٹے گھر، ڈوبتے مکان، تباہ حال فصلیں،یہ منظر صرف خبروں میں دیکھانے والے تہلکہ خیز اعداد و شمار نہیں، یہ کہانیاں ہیں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی۔ اپنے پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ۔وقت اب بھی مٹھی میں ہے۔ اب بھی قابو میں۔ ہاتھ سے نہیں نکلا۔اگر ہم آج شجرکاری کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھ لیں،جدید ڈیمز، واٹر مینجمنٹ سسٹمز اور سبز پالیسیاں اپنائیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ رہائشی علاقے بنائیں۔۔ توبارشیں تو ہونگی اور سیلاب بھی آئیں گے مگر ہسستی مسکراتی زندگیوں کو متاثر نہیں کرے گے۔ ضرورت صرف عزم، اتحاد، اور شعور کی ہے۔درخت لگانا صرف ایک شجرکاری مہم نہیں، بلکہ یہ آنے والی نسلوں کو تحفظ دینے کا معاہدہ ہے۔آئیے! آج ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم پاکستان کو سبز بھی بنائیں گے اور محفوظ بھی۔ ٠ |