زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز — ایک سازش
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, Islamabad)
پروفیسر مسعود اختر ہزاروی نے اپنے فکر انگیز کالم میں اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ کبھی یہی لہلہاتے کھیت ہماری خوراک کی ضرورت پوری کرتے تھے لیکن آج وہی زمینیں ہاؤسنگ مافیاز کے ہاتھوں کنکریٹ کے جنگل بن رہی ہیں۔ یہ صرف زمین نہیں، ہماری آنے والی نسلوں کی سانسیں ہیں۔ کیا چند خاندانوں کی مال و زر کی ہوس پوری کرنے کے لیے پوری قوم کو غذائی قلت کی طرف دھکیل دینا ترقی کہلائے گا؟ |
|
|
عنوان: زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز — ایک سازش
تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں کی مٹی سونا اُگلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جہاں نہروں اور دریاؤں کا جال بچھا ہے، جہاں گندم، کپاس، چاول اور گنا اُگانے کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ لیکن افسوس کہ آج انہی زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر کیا جا رہا ہے۔ چند خاندانوں کی دولت کی ہوس پوری کرنے کے لیے قومی مستقبل داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک کے بڑے شہروں کے گرد دیہات اور زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مضافات میں جو زمینیں کبھی گندم اور سبزیوں سے لہلہاتی تھیں، آج وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال بچھا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومتوں کی آشیر باد اور اربابِ اختیار کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ جن زمینوں پر ملک کے کروڑوں عوام کی خوراک اُگنی تھی، وہ مافیاز کے ہاتھوں اربوں روپے کے تجارتی منصوبے بن چکی ہیں۔دنیا کے ہر باشعور ملک میں سب سے پہلی ترجیح فوڈ سیکیورٹی کو دی جاتی ہے۔ چین، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک زرعی زمین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین رکھتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کسانوں کو سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ زراعت متاثر نہ ہو۔ لیکن پاکستان میں الٹا تماشا ہے۔ یہاں زرعی زمین کو برباد کرنے کو "ترقی" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب ہماری آبادی بڑھ رہی ہے تو خوراک کی ضرورت کہاں سے پوری ہو گی؟ کیا ہم اپنی قوم کو باہر سے گندم اور دالیں در آمد کر کے پالیں گے؟ کیا ایک زرعی ملک کو اناج کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا زیب دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پیچھے چند بااثر خاندان اور طاقتور مافیاز ہیں۔ یہ لوگ راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں جبکہ کسان، مزدور اور غریب عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجے میں پس رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ حکمران بھی ان کے سامنے بے بس ہیں یا پھر ان ہی کا حصہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس ملک کی سونا اگلتی زمینوں کو ہی نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی نیلام کر دیا گیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں زمین اور اس کی پیداوار کو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت قرار دیا گیا ہے۔ ترجمہ: "وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو قابو میں کیا تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور اسی کی طرف تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔ (الملک: 15)" ایک اور مقام پر فرمایا گیا "اللہ نے جو رزق اور وسائل تمہیں دیے ہیں، ان میں دوسروں کا حق بھی ادا کرو"۔ (النور: 33) زرعی زمینوں کو برباد کرنا دراصل اللہ کی نعمت کی ناشکری اور آئندہ نسلوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "جس نے کسی بنجر زمین کو آباد کیا وہ اس کا حق دار ہے" (سنن ترمذی) یہ حدیث زراعت اور زمین کی آبادکاری کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ اس کے برعکس زرعی زمین کو برباد کرنا یا اس پر ناجائز قبضہ کر کے منافع خوری کرنا ایک طرح کی خیانت ہے۔اگر فوری طور پر اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی اور زرعی زمینوں کی بربادی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کو شدید غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زرعی زمین سکڑتی جائے گی اور خوراک کی پیداوار کم ہوتی جائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم ہر سال اربوں ڈالر کی خوراک درآمد کریں گے۔ پہلے ہی ہمارا تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، ایسے میں خوراک کی درآمد مزید تباہی لائے گی۔ غذائی قلت بڑھنے سے مہنگائی آسمان کو چھوئے گی اور غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس خطرناک رجحان کو روکا جائے۔ حکومت کو فوری طور پر زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام پر پابندی لگانی چاہیے۔ شہری منصوبہ بندی میں عمودی (Vertical) رہائش کو فروغ دیا جائے تاکہ زرعی زمین محفوظ رہے۔ کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور سبسڈی دے کر زراعت کی طرف راغب کیا جائے۔ اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ زرعی زمین ہماری بقا کی ضامن ہے، اسے غیر زرعی پراجیکٹس کیلئے استعمال کرنا اپنی آنے والی نسل سے دشمنی ہے۔ پاکستان کو بچانا ہے تو اپنے لہلہاتے کھیت اور کھلیان بچانے ہوں گے۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارا ملک ہاؤسنگ مافیاز کے ہاتھوں یرغمال نہیں بن سکتا۔ چند خاندانوں کی عیاشی کے لیے پوری قوم کو غذائی غلامی میں دھکیلنا کسی طور قابل قبول نہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کنکریٹ کے جنگل چاہتے ہیں یا سرسبز کھیت؟ دولت کے پجاریوں کے خواب پورے کریں گے یا اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنائیں گے؟ یہی وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ |