سرمایہ دارانہ نظام: شاخ نازک پر بنا ہوا آشیانہ

’ایک وقت آئے گا کہ جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہوگا۔سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی۔مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔اور آج کا یہ دور تاریخ میں ایک داستان عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہوگئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے‘‘ یہ الفاظ تھے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے جو انہوں نے آج سے تقریباً 64سال قبل 1946ء میں سیال کوٹ میں ایک تقریب میں کہے تھے۔ اور ان کے یہ الفاظ بالکل درست تھے۔ جس وقت یہ الفاظ کہے گئے تھے اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کمیونزم کبھی فنا بھی ہوسکتا ہے،روس آدھی دنیا پر قابض تھا۔ اور کہا جاتا تھا کہ روس جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک وقت آیا کہ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔کمیونزم کے نام لیوا اب کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔اسی طرح جب انہو ں نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی‘‘ اس وقت کس کو پتہ تھا کہ یہ الفاظ دراصل کوئی خالی الفاظ نہیں ہیں بلکہ پیش گوئی ہیں کیوں کہ مومن اللہ کے نور دیکھتا ہے اور مولانا مودودی کی دُور بین نظروں نے جو کچھ دیکھا تھا آج وہ سچ ثابت ہورہا ہے۔

وہ سرمایہ دارانہ نظام جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا آج لرزہ براندام ہے۔اور اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا عمل کہیں اور سے نہیں بلکہ خود اس کے وطن نیو یارک سے شروع ہوا ہے۔ سود کو اللہ کے ساتھ جنگ کہا جاتا ہے اور عالمی سرمایہ داروں اور سود خور یہودیوں نے اس نظام کی بنیاد رکھ کر اللہ سے جنگ شروع کی تھی ،اور اس نظام کی بدولت کم و بیش آٹھ عشروں تک نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کو اپنی گرفت میں رکھا ۔لیکن اب یہ گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔

دوستو جب میں اور آپ کبھی امریکہ،برطانیہ یا یورپی ممالک کے بارے میں کوئی دستاویزی فلم،کوئی فیچر رپورٹ پڑھتے تھے تو ہمارے سامنے ایک تصویر بنتی تھی کہ اس معاشرے میں خوش حالی ہی خوش حالی ہے۔ہر فرد بہت خوش اور مطمئن ہے،ان کے پاس رہنے کو بہترین سوئٹ،لگژری فلیٹ ہیں۔ان کے پاس پہننے کے لئے بہترین کپڑے ہیں،اس معاشرے کے لوگ بہت کم پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ وہاں تقریباً ہر فرد کے پاس اپنی گاڑی ہے۔اسی طرح ہم سوچتے تھے کہ ان کا نظام کتنا اچھا ہے کہ کیش سنبھالنے کا جنجھٹ ہی نہیں بس کریڈٹ کارڈاستعمال کرو اور خوش رہو۔

لیکن وقت نے بتایا کہ یہ ترقی،یہ خوشحالی،یہ چکاچوند جھوٹی ہے،امریکہ اور یورپ کا ایک عام فرد جو کہ بہترین فلیٹ میں رہتا ہے،جس کے پاس بہترین گاڑی،بہترین سوٹ،لیپ ٹاپ،ہیں اور جو کہ کھلے ہاتھ سے شاپنگ کرتا ہے دراصل وہ سب کچھ اس کے اپنا نہیں تھا بلکہ یہ سارے کام سودی نظام کی بدولت اس کو حاصل ہوئے تھے،بنکوں نے یہ سسٹم بنا لیا کہ اگر گھر خریدنا ہے،کار خریدنی ہے،لیپ ٹاپ،فرنیچر خریدنا ہے یا شاپنگ کرنی ہے تو سود پر قرضہ دیدیا جاتا ہے اس کے بعد وہ فرد اب اپنے لئے نہیں کماتا بلکہ وہ بنک کا ملازم بن جاتا ہے اور وہ بنک کے قرضے اتارنے کے لئے کماتا ہے،اس کی ساری کمائی بنکوں کے قرضے اور ان کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ روز مرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے بنک سے مزید قرض لیتا ہے اور اس طرح سرمایہ دارنہ سودی نظام اس کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیتا ہے۔اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گھر،اس کی گاڑی،اس کا فرنیچر،کا لیپ ٹاپ سب کسی بینک کی ملکیت ہیں۔

لیکن اب یہ آکٹوپش اپنی موت آپ مرنے کو ہے۔نیو یارک سے شروع ہونیوالی ’’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘تحریک بڑھتی گئی اور اس کا دائرہ آہستہ آہستہ پوری دنیا تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔اس تحریک کا آغاز تو رواں برس کے وسط میں ایک کینڈین تنظیم Adbusters Media Foundation نے کیا تھا ۔انہوں نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،جمہوری نظام پر سرمایہ داروں کے اثر رسوخ ،بے روزگاری وغیرہ کے خلاف احتجاج سے کیا۔اور اس تنظیم نے ہی وال اسٹریٹ جو کہ امریکہ میں سرمایہ دارنظام کی ایک علامت ہے پر پُر امن قبضے کا خیال پیش کیا۔آہستہ آہستہ لوگ ان کے احتجاج میں شریک ہوتے گئے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوبامہ نے نئی فنانشل پالیسی میں امیروں پر غریبوں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کا خیال بھی پیش کیا۔دوسری جانب یہ تحریک پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور نہ صرف امریکہ ،برطانیہ اور یورپی ممالک بلکہ بھارت اور پاکستان میں بھی اب اس کے خلاف احتجاج شروع ہوچکا ہے۔اللہ سے جنگ کرکے جس نظام کا آغاز کیا گیا تھا وہ نظام اب اپنی موت آپ مرنے کو ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔

اور یہ ناپائیدار آشیانے اب خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر رہے ہیں۔اور یہ بھی یاد رہے کہ علامہ اقبال نے اسی نظم میں ایک اور بات کہی تھی
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہشیار ہوگا

ہاں یہ بھی وقت آئے گا اور شائد ہم سے بہت سارے لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ،اپنے وقت کی ایک سپر پاور،سلطنتِ برطانیہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ،وہ سپر پاور جب افغانستان میں داخل ہوئی تو بہت بری طرح پٹ کر نکلی،اور اس کے فوراً بعد ہی سلطنت برطانیہ نے اپنے زیر قبضہ بر صغیر (پاکستان،انڈیا،بنگلہ دیش )کو آزاد کیا،اور چلتا بنا۔

پھر یہی حماقت سوویت یونین نے کی،اور روس نے افغانستان پر چڑھائی کردی،وہی روس جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ روس جس ملک میں داخل ہوا پھر وہاں سے نہیں نکلالیکن دنیا نے دیکھا کہ وہی روس افغانستان سے بری طرح شکست کھا کر نکلا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ روس کے افغانستان سے نکلنے سے پہلے اس کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا تھا اور اب فرعون وقت امریکہ نے بھی یہ حماقت کی اور افغانستان پر چڑھ دوڑا ،یہ سوچ کر کہ بس چند دنو کی بات ہے اور افغانستان میرے قبضے میں ہوگا اس کے بعد ایران،پاکستان ،چین وغیرہ تو کہیں نہیں جائیں گے لیکن آج دس سال سے زائد عرصہ گذر گیا ہے اور امریکہ وہاں پٹ رہا ہے،آج امریکہ انہی طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے جن کو انسان ہی ماننے کو تیار نہ تھا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ دنیا میں جو دہشت گردی برپا کی تھی،اس دہشت گردی کے اخراجات نے آج اس کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا جادو جس نے کم و بیش آٹھ عشروں تک دنیا کو اپنا سحر میں جکڑا ہوا تھا،اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔

’’ایک وقت آئے گا کہ جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہوگا۔سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی۔مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔اور آج کا یہ دور تاریخ میں ایک داستان عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہوگئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے‘‘ یہ الفاظ تھے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے جو انہوں نے آج سے تقریباً 64سال قبل 1946ء میں سیال کوٹ میں ایک تقریب میں کہے تھے۔ اور ان کے یہ الفاظ بالکل درست تھے۔ جس وقت یہ الفاظ کہے گئے تھے اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کمیونزم کبھی فنا بھی ہوسکتا ہے،روس آدھی دنیا پر قابض تھا۔ اور کہا جاتا تھا کہ روس جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک وقت آیا کہ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔کمیونزم کے نام لیوا اب کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔اسی طرح جب انہو ں نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی‘‘
( سید ابو الاعلیٰ مودودی ،دسمبر1946ء سیالکوٹ )
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519959 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More