یہ پگ اس بار عمران نے ان کے گڑھ
ہی میں جا کر اس کے لئے خطرات پیدا کر دیا اور یہ باور کرا دیا کہ بھائی اس
پنجابی پگ کے محافط صرف مغل شہزادے شر یف برادران ہی نہیں جو زبردستی اس پگ
کی سیاست پچھلے بیس سال سے کر رہے ہیں بلکہ اس پگ کے وارث صرف وہی نہیں
بلکہ پورا ملک نہ صرف اس پگ کا بلکہ، سارے ملک کے لوگوں کی عزت نفں اور
غیرت کا وارث پورا ملک اور اس کے باشندے ہیں ۔ کسی شخص اور صوبے کو یہ زعم
نہیں ہونا چاہئیے کہ کوئی خاص طبقہ یا صوبہ اس ملک اور حکومت کا وراثت کا
صرف وہی حقدار اور وارث ہے، کیونکہ اب پنجاب کے لوگوں ہی نے اس لسانی سوچ
کوپنجاب کے دل میں ایک عزیم الشان جلسہ کو کامیاب کر کے پگ کی سیاست دفن
کرنے کا اعلان کر دیا ۔ چونکہ نون لیگ ملکی سیاست کو لسانی سیاست میں تبدیل
کر کے پنجاب کے وارث ہونے کا دعوا کر کے سیاست میں پگ لے آئے اور جاگ
پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ لیتے رہے ہیں
اور پاکستانی سیاست کو لاہور اور اسکے مضافات تک محدود کر کے باقی ملک کو
وفاقی سیاست سے دور کر دیا۔ جس سے ملک میں محرومی نے جنم لیا۔
اس وقت ملک کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے
عزائم کی روک تھام اس وقت ممکن ہوگی جب پورا ملک سراپا احتجاج ہو جائے ،
اور ریاست کے کسی بھی ایک علاقے پر حملہ پورے ملک پر حملہ تصور ہو رد عمل
کے طور پر پورا ملک سراپائے احتجاج ہو تو پھر یہ عالمی قوتوں کو اس کاروائی
کو روکنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہے ۔ انہیں جب
یہ خدشہ ہو کہ پوری قوم ان کے خلاف کھڑی ہو کرانکے مفادات کو شدید نقصان سے
دوچار کر سکتی ہے تو وہ کسی کاروائی سک گریز کریں گے ۔ اگر یہ لسانی سوچ
رکھنے والے اس پگ سیاست سے قومی یک جہتی کو نقصان سے دوچار کرتے رہیں گے اس
سے عالمی طاقتیں فائدے اٹھاتی رہیں گی۔
عوام ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، ڈرون حملوں ، قومی اداروں میں لوٹ مار
قومی اداروں کا برباد ہونا مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ ان سب میں
بہتری اور تبدیلی چاہتے ہیں اور قوم کو معلوم ہے کہ یہ تبدیلی ملک میں
موجود پارٹیاں کر نے میں ناکام رہی ہیں ،چونکہ سب کو حکومت کرنے کا اختیار
دیا گیا لیکن تبدیلی نہیں بلکہ تنزلی ہی تنزلی نظر آئی ۔ اس لئے تمام
پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان سے توقع رکھتے ہیں کہ اب کے انہیں
آزما کر دیکھا جائے کہ یہ کیا تبدیلی لا سکیں گے ۔ قوم تبدیلی کی شدید
خواہش کو عمران ہی کے ز ریعے پور ا ہونے کی توقع کر تے ہیں اور یہی سوچ
عمران کے فائدے میں جا رہی ہے ۔
کل تک نون لیگ والے بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں کہ عمران خان اپنے جلسے میں
چند ہزار لوگوں بھی جمع نہیں کر سکے گا اور اگر ہمارے جلسے سے آدھے بھی جمع
کر لے تو وہ تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں گے ۔ اس قسم کی باتیں کرناحقیقت
سے انکھیں چرانا بھی کہا جا سکتا ہے۔ دراصل لوگ عمران خان کو بحیثیت کھلاڑی
تو دیکھتے رہے ہیں اور پاکستان کے سیاسی لوگ انہیں ایک بڑا قومی ہیرو کے
روپ میں ہی رکھنا چاہتے ہیں سیاست میں انکی مداخلت انہیں گراں گزر رہی ہے۔
اب اس لسانی طرزسیاست کی تبدیلی کا اعلان لاہور میں عمران خان نے کامیاب
جلسہ کر کے کر دیاہے جس کا سب سے زیادہ خطرہ نون لیگ کی سیاست کوہے جو انکو
ان کے اپنے مضبوط گڑھ ہی کے سیاسی دنگل سے برخواستگی بھی کر سکتا ہے ۔
حالانکہ عمران پچھلے پندرہ سال سے سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد میں
غوطہ زن ہے اور بہت جوش سے غلط بلوں میں ہاتھ ڈال کر خود کوزخمی بھی کیا
اور اپنے خلاف مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر لیا۔ پھر خود ہی کنارہ کشی کر
گئے اس سے ان کی اوللعزمی پر تحفظات کا ااظہار کیا گیا۔ ہر کچھ عرصہ بعد
ایک نیا محاظ کھڑا کر کے اس کا چرچا کیا اور پھر دوسرا محاظ کھول لیا جبکہ
پہلا محاظ بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ پچھلے سالوں میں ان کی پارٹی کوئی قابل
ذکر کامیابی بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ممکن ہے ان کو غلط مشورے
دینے والے انہیں ابتدا ہی میں اصغر خان کی طرح بنا کر دیوار سے لگانا چاہتے
تھے ۔
پندرا سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ لوگ حیرت انگیز طور پر عمران سے یک جہتی
کے لئے اتنی بڑی تعداد میں اسے سننے جمع ہوئے ہیں جو قومی سوچ میں بہت بڑی
تبدیلی ہے اور پنجاپی پگ کی سیاست کے خاتمہ پر ایک بھر پور ضرب بھی ہے ۔ اس
موقع پر عمران کوایک میچور سیاست دان کا کردار ادا کرنا چاہئیے کیونکہ
انگلیاں ان پر اب زیادہ اٹھائی جائیں گی۔ کیا وہ اس سیاسی اٹھان کو سنبھال
پائیں گے۔ انہیں بہت احتیاط اور سمجھ داری سے اس سیاسی اکھاڑے میں داؤ پیچ
آزمانے ہونگے۔ ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ |