نیپال کے بحران میں پاکستان کیلئے بھی سبق موجود ہے

یہ منظرنامہ پاکستان کے لیے بھی نہایت اہم اور سبق آموز ہے۔ پاکستان میں بھی نوجوان سب سے بڑی آبادی یعنی 60 فیصد ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ مسائل بھی انہی کو درپیش ہیں۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
نیپال میں ایک اچانک اور غیر متوقع عوامی طوفان برپا ہوا جس نے پورے خطے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ یہ بحران اتنی تیزی سے شدت اختیار کر گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی فضا ہنگاموں اور احتجاجی نعروں سے گونج اٹھی اور وزیراعظم کے پی شرما اولی کو اپنی کرسی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بظاہر یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی سے شروع ہوا تھا، لیکن چند ہی دنوں میں یہ ایک ہمہ گیر تحریک میں بدل گیا جس نے نیپالی معاشرے کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔
نیپال کی حکومت نے اچانک فیس بک، یوٹیوب، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور دیگر بڑے پلیٹ فارمز کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے حکومت کی دلیل یہ تھی کہ سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی تنقید اور حکومتی پالیسیوں پر عوامی ردعمل کو محدود کیا جائے، مگر اس فیصلے نے نوجوانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ موجودہ دور کا نوجوان اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ڈیجیٹل دنیا سے جڑا ہوا ہے، چاہے وہ تعلیم ہو یا کاروبار، معلومات کا تبادلہ ہو یا اظہارِ رائے، ہر چیز کا انحصار ان پلیٹ فارمز پر ہے۔ جب یہ دروازے اچانک بند کیے گئے تو نوجوانوں کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
پہلے پہل یہ احتجاج نسبتاً پرامن تھے۔ مختلف شہروں میں ہزاروں طلبہ، نوجوان اور عام شہری سڑکوں پر نکلے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ لیکن جیسے ہی حکومت نے طاقت کے استعمال کا سہارا لیا، حالات نے ایک خطرناک رخ اختیار کر لیا۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج، ربڑ کی گولیوں اور حتیٰ کہ براہِ راست فائرنگ کا بھی استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں صرف دو دن میں انیس افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ یہ ہلاکتیں عوامی غصے میں مزید اضافے کا باعث بنیں۔
اب احتجاج صرف سوشل میڈیا آزادی کا مطالبہ نہیں رہا، بلکہ نوجوان نسل نے اپنی زندگیوں کو درپیش اصل مسائل کی طرف بھی رخ کر لیا۔ وہ کرپشن کے خلاف نعرے لگانے لگے، بے روزگاری کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حکمران اشرافیہ کی مراعات اور ان کے شاہانہ طرزِ زندگی پر سوالات اٹھانے لگے۔ سیاسی رہنماؤں کے دفاتر اور گھروں پر حملے ہوئے، پارلیمنٹ اور دیگر اہم عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سب اس بات کی علامت تھا کہ نوجوان نسل صرف ایک وقتی معاملے پر نہیں بلکہ پورے نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو چکی ہے۔
ان بڑھتے ہوئے ہنگاموں نے وزیراعظم کے پی شرما اولی کو شدید دباؤ میں ڈال دیا۔ انہوں نے حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے استعفیٰ دینے کو ہی بہتر سمجھا تاکہ مزید خونریزی سے بچا جا سکے۔ بظاہر یہ ایک وقتی حل ہے، لیکن اس نے نیپال کی سیاست کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب نیپال میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ نوجوانوں کے اس غصے کو کس طرح سنبھالا جائے اور کیا حکمران طبقہ ان کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں۔
یہ منظرنامہ پاکستان کے لیے بھی نہایت اہم اور سبق آموز ہے۔ پاکستان میں بھی نوجوان سب سے بڑی آبادی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک کی کل آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ مسائل بھی انہی کو درپیش ہیں۔ لاکھوں طلبہ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں، میرٹ کے دروازے بند ہیں، سفارش اور کرپشن کی جڑیں گہری ہیں، مہنگائی نے مستقبل کے خواب توڑ ڈالے ہیں اور تعلیم کو معیاری بنانے کی بجائے اس کی لاگت بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستانی نوجوان بھی ڈیجیٹل دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ یوٹیوب پر لاکھوں پاکستانی نوجوان تعلیم، روزگار اور کاروبار کے مواقع حاصل کر رہے ہیں۔ فری لانسنگ، آئی ٹی اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے نہ صرف وہ اپنے لیے آمدنی کے ذرائع بنا رہے ہیں بلکہ ملک کی معیشت میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔ لیکن جب کبھی انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو سب کچھ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ایک دن کی انٹرنیٹ بندش لاکھوں طلبہ، اساتذہ، کاروباری افراد اور فری لانسرز کو متاثر کرتی ہے۔ یہ صورتحال بالکل وہی ہے جس نے نیپال میں نوجوانوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا۔
پاکستان میں بھی نوجوانوں کے اندر ایک بڑھتی ہوئی بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک طرف بے روزگاری اور مہنگائی نے انہیں مایوس کر رکھا ہے، دوسری طرف سیاسی کشمکش اور عدم استحکام نے ان کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ جب یہ نسل دیکھتی ہے کہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے اور حکمران طبقہ محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں ہے تو ان کے اندر اضطراب اور غصہ بڑھتا ہے۔ اگر ان مسائل پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو پاکستان بھی اسی قسم کے بحران سے دوچار ہو سکتا ہے جیسا ہم نے نیپال میں دیکھا۔
نیپال کے بحران سے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کو چند اہم اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے:
1. نوجوانوں کو نظرانداز نہ کیا جائے: نوجوان ملک کی سب سے بڑی قوت ہیں۔ اگر انہیں مواقع ملیں تو یہی نسل ترقی کی بنیاد رکھ سکتی ہے، لیکن اگر انہیں مسلسل نظرانداز کیا جائے تو یہی قوت بحران میں بدل سکتی ہے۔
2. حکومت کو چاہیے کہ تعلیم کو سستا اور معیاری بنایا جائے، نوجوانوں کو جدید ہنر سکھانے کے لیے ادارے قائم کیے جائیں اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
3. جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا، نوجوانوں کو یقین نہیں آئے گا کہ ان کی محنت کا صلہ مل سکتا ہے۔ شفافیت اور میرٹ کا نفاذ سب سے ضروری ہے۔
4. نوجوانوں کو اپنی رائے آزادانہ دینے کا حق دیا جائے۔ سوشل میڈیا پر پابندیاں اور انٹرنیٹ کی بندش نوجوانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ یہ ان کے مستقبل کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔
5. نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شامل کیا جائے۔ پارلیمنٹ، بلدیاتی اداروں اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل خود ایوانوں تک پہنچا سکیں۔
نیپال کا بحران دراصل نوجوانوں کی طاقت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اگر یہ طاقت مثبت سمت میں استعمال کی جائے تو معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے، لیکن اگر اس طاقت کو دبانے کی کوشش کی جائے تو یہی نسل نظام کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نیپال کے حالات سے سبق حاصل کریں اور نوجوانوں کو محض نعرے دینے کے بجائے ان کے مسائل کا حقیقی حل فراہم کریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ بے چینی کسی بڑے طوفان میں بدل جائے گی۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 158 Articles with 100710 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.