حملہ یا پیغام۔سمجھنا ہوگا
(Waseem Akaash, Islamabad)
افغان فورسز کی جانب سے پاکستانپر حملہ دشمن کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے جس کے جواب میں قومی اتحاد، اور افواج پاکستان پر تیقین کی ضرورت ہے۔ |
|
سر زمین پاکستان جو انعام خداوندی ہے ایک ایسی قوم کے لئے جو امن و استحکام، خودداری، قومی غیرت و حمیت اور عزم و حوصلے کے ساتھ خطے میں تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی آئی ہے۔ مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان سے ہی بیرونی ہتھکنڈوں اور سازشوں کا سامنا کرتی آئی ہے۔ کبھی دہشت گردی اور کبھی سرحدی حدود میں چھیڑ خوانی ، کبھی سندھ طاس معاہدے کی معطلی تو کبھی بلوچستان اور افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی جیسے ہتھکنڈوں سے اس ارض پاک کو گزند پہنچا نا دشمن کی فطرت بن چکا ہے۔ تاہم حالیہ افغان فورسز کی جانب سے پاکستان پر حملہ کوئی معمولی جھڑپ نہیں۔ یہ محض سرحد پار سے ہونے والا ایک اور حملہ نہیں اور نہ ہی یہ ایک وقتی واقعہ ہے جو چند روز میں بھلا دیا جائے گا۔ یہ ایک پیغام ہے ، ایک سوچا سمجھا، باضابطہ اور مجرمانہ پیغام جو دشمنوں کی صفوں سے پاکستان کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اور افسوس کہ یہ پیغام ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان کا اعلیٰ سفارتی وفد بھارت میں موجود تھا، جہاں وہ مشترکہ اعلامیوں پر دستخط کر رہا تھا، جن میں پاکستان کے خلاف زہر بھرا گیا تھا۔ایسے وقت میں افغان فورسز کی جانب سے پاکستان پر حملہ صرف ایک اتفاق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے چھپی نیت، سوچ اور منصوبہ صاف دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے دشمن محاذ در محاذ تیار کر رہے ہیں۔ اور یہ حملہ ان کا پہلا یا آخری حربہ نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی شروعات ہے ۔ ایک ایسے دور کی جس میں دشمنی کا انداز بدلا ہے،چہرے وہی ہیں مگر چالیں نئی ہیں۔ بھارت افغان گٹھ جوڑ خطے کے امن و ستحکام کی طرف ایک خطرناک اشارہ نظر آرہا ہے۔افغان وزیر خارجہ کا بھارت میں موجود ہونا، اور عین انہی دنوں پاکستان کی سرحدوں پر حملہ آور ہونا محض ایک سفارتی تصادف نہیں ہو سکتا۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں افغانستان وہی کردار تو نہیں نبھا رہا جو ماضی میں بھارت اپنے اتحادیوں سے نبھواتا آیا ہے؟پاکستان ہمیشہ افغانستان کا خیر خواہ رہا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دی، تعلیم، روزگار، علاج، سب کچھ فراہم کیا۔ مگر جواب میں کیا ملا؟ زخم، بارود، اور اب سرحد پار سے حملے!یہ طرزِ عمل اس مکافاتِ عمل کا حصہ ہے جسے دشمن ممالک "سفارتی حکمتِ عملی" کا نام دے کر نافذ کر رہے ہیں۔ اور جب بھارت جیسے ملک کی سرپرستی حاصل ہو تو ایک غیر مستحکم افغانستان سے ایسے ہی اقدامات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ افغانستان جو خود داخلی خلفشار کا شکار ہے، وہ کیسے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ جواب یہی ہے کہ کسی طاقتور کی پشت پناہی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دشمن کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوئی ، صرف اس کا انداز بدلا ہے۔ آج کی جنگ میدان میں نہیں، سفارتخانوں، نیوز چینلز، سوشل میڈیا اور غیر روایتی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ دشمن وہی پرانا ہے، مگر آج اس نے "شراکت داروں" کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ افغانستان کو آگے کر کے، بھارت پسِ پردہ بیٹھ کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان اوروفاق کو افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے سخت اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ یہ حملہ دراصل ایک نفسیاتی حملہ ہے ۔پاکستانی عوام کے حوصلے توڑنے، ان کے دلوں میں انتشار پیدا کرنے اور انہیں اپنی ریاست، اپنی افواج، اور اپنے اداروں سے بدظن کرنے کی کوشش۔ مگر دشمن کو جان لینا چاہیے کہ یہ قوم قربانی دینا جانتی ہے، مگر بکھرنا نہیں۔ یہ وقت اختلافات کو ہوا دینے کا نہیں۔ یہ لمحہ سیاسی نعروں، مفاداتی بیانیوں، یا میڈیا کی سنسنی خیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب دشمن متحد ہو کر حملہ آور ہو، تو ہمیں اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر متحد ہونا ہوگا۔یہ وہ لمحہ ہے جب ہر پاکستانی کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہوگا ۔ زبان، نسل، فرقہ، جماعت سے بالاتر ہو کر۔ کیونکہ اگر ہم نے اس پیغام کو سمجھنے میں دیر کر دی، تو آنے والے دن مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔ہمیں اپنی افواج، اپنی سرحدوں، اور اپنے سفارتی محاذ پر کھڑے جوانوں پر فخر کرنا چاہیے۔ جو دشمن کی ہر چال کا نہ صرف مؤثر جواب دے رہے ہیں بلکہ خاموشی سے قوم کی عزت و حرمت کی حفاظت کر رہے ہیں۔فتنہ الخوارج کی سرکوبی من حیث القوم ہمارا مشن ہے ۔ اور اس ضمن میں ہر قدم پر عوام کو افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمیں سفارتی سطح پر بھی اسی زبان میں بات کرنی ہوگی جس زبان میں ہمیں مخاطب کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کی حکومت سے سخت مؤقف اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اور اگر وہاں کی حکومت کسی اور کے اشاروں پر ناچ رہی ہے تو ہمیں وہ پردہ چاک کرنا ہوگا۔ عالمی فورمز پر کھل کر دشمنوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔اسی طرح بھارت کے کردار کو بھی دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خطے میں ہر چھوٹے بڑے بحران کے پیچھے جو سائے دکھائی دیتے ہیں، ان میں ایک سایہ بھارت کا بھی ہوتا ہے ۔ جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنے کی دیرینہ خواہش رکھتا ہے۔ نتیجتاً یہ حملہ صرف ایک واقعہ نہیں، یہ ایک تنبیہ ہے۔ یہ پیغام ہے کہ دشمن اب "نئی شکلوں" میں سامنے آ رہا ہے۔ اور اگر ہم نے اس پیغام کو نظرانداز کیا، یا اسے وقتی تناؤ سمجھ کر ٹال دیا، تو ہمیں آنے والے وقت میں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ہمیں اس حملے کو صرف ایک سرحدی خلاف ورزی کے طور پر نہیں، بلکہ دشمن کے ایک بھرپور اور منظم نفسیاتی، عسکری و سفارتی حملے کے طور پر لینا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم اسے درست تناظر میں نہ سمجھ سکے، تو دشمن اپنی چال میں کامیاب ہو جائے گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جذباتی، فکری اور عملی سطح پر متحد ہوں۔ دشمن کو ایک پیغام دینا ہوگا — کہ یہ پاکستان ہے، نہ جھکے گا، نہ رکے گا، نہ بکھرے گا۔کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت ایمان، اتحاد اور تنظیم کے مسلمہ اصولوں سے بہرہ ور ہو کر ملک پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے ہمہ دم برسر پیکار بھی ہے اور کروڑوں دلوں سے نکلنے والی دعاؤں کی حقداربھی ۔ بقول واصف علی واصف ۔" پاکستان نور ہے اور نورکو زوال نہیں۔"
|
|