عورت کی جدوجہد اور آن لائن کامیابی تحریر: عالیہ مبشر( سوشل میڈیا انفلونسر، یوٹیوبر )
رات کی خاموشی گہری ہو چکی ہے۔ کھڑکی کے باہر درختوں کے سائے ہلکی ہوا کے ساتھ لرز رہے ہیں۔ گلی میں کوئی آہٹ نہیں، بس کہیں دور سے کتے کے بھونکنے کی مدھم سی آواز آتی ہے، ایک چھوٹے سے کچن میں چراغ جل رہا ہے۔ زرد بلب کی روشنی میں ایک عورت کھڑی ہے۔ چولہے پر رکھا برتن ٹھنڈا ہو چکا ہے، بچے بستروں میں گہری نیند میں ہیں، لیکن اس عورت کی آنکھوں میں نیند نہیں، صرف خواب ہیں۔ وہ خواب جو دن کے شور شرابے میں دب جاتے ہیں، مگر رات کی تنہائی میں پلکوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی موبائل کا زاویہ درست کرتی ہے، کبھی میز پر رکھی پلیٹوں کو اس طرح سجاتی ہے جیسے یہ کچن نہیں بلکہ کسی فلم کا سیٹ ہو۔ اس کے ہاتھوں میں ہلکی کپکپاہٹ ہے، مگر دل میں ایک عجیب سا یقین ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگرچہ ابھی کوئی اس کی ویڈیو نہیں دیکھ رہا، مگر ایک دن یہ چھوٹے چھوٹے کلپس لاکھوں دلوں تک پہنچیں گے۔ یہی یقین اس کے تھکے ہوئے وجود کو سہارا دیتا ہے۔ کچن کی دیواروں پر لگی پرانی ٹائلیں اور میز پر رکھے زنگ آلود برتن گواہی دیتے ہیں کہ یہ سفر آسان نہیں۔ یہ وہ کچن ہے جس میں دن رات کے جھمیلے، بچوں کی ضدیں اور ذمہ داریوں کا بوجھ شامل ہے۔ مگریہ عورت ان سب کے باوجود ایک نیا جہاں بسانے کی کوشش میں ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کامیابی کے دروازے کھٹکھٹانے والے کے لیے کھلتے ہیں، چاہے دستک کتنی ہی دیر تک کیوں نہ دینی پڑے۔
یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں، بلکہ آج ہزاروں لاکھوں عورتوں کی کہانی ہے جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر دنیا کے ساتھ جُڑ رہی ہیں۔ وہ عورتیں جو کبھی صرف خواب دیکھتی تھیں، آج حقیقت میں اپنا مقام بنا رہی ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد نے جب سے ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کیا ہے، پاکستان اور دنیا بھر میں عورتوں نے آن لائن میدان میں خود کو منوایا ہے، یہ ایک زندہ ثبوت ہے کہ اگر عزم پکا ہو تو کامیابی کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ لیکن یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس میں جدوجہد ہے، مشکلات ہیں، ناکامیاں ہیں، اور پھر ان سب پر حوصلے کی جیت ہے۔
عورت جب اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلتی ہے تو وہ صرف اپنی زندگی نہیں سنوارتی بلکہ اپنے خاندان کی دنیا بھی بدل دیتی ہے۔ پہلے وہ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے دوسروں پر انحصار کرتی تھی، اب اپنے پیسوں سے بچوں کی فرمائشیں پوری کرتی ہے۔ آج آن لائن کامیابی کے بے شمار مواقع ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ای کامرس پلیٹ فارمز نے دنیا کو ایک گلوبل گاؤں بنا دیا ہے۔ کوئی دیہات میں بیٹھی لڑکی اپنے ہاتھ کی بنی جیولری بیچ سکتی ہے، کوئی لڑکی شہر کے عام سے محلے میںاپنےبیکنگ اسکلز کے ذریعے پیسے کما سکتی ہے تو کوئی آن لائن کلاسز دےکر اپنا ذریعہِ معاش بڑھا سکتی ہے۔ پھر فری لانسنگ پلیٹ فارمز جیسےFiverr، Upwork اور PeoplePerHour نے ان کے لیے دنیا بھر کے کلائنٹس تک رسائی آسان بنا دی ہے۔ لیکن ساتھ ہی مشکلات بھی کم نہیں ہوتیں۔ انٹرنیٹ کا مسئلہ، کبھی بجلی کا مسئلہ اور کبھی فیملی کا دباؤ کہ، یہ سب وقت کا ضیاع ہے، اور سب سے بڑھ کر تنقید کا سامنا۔ یہ راستہ اکیلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ طنز، تنقید اور طعنے بھی سفر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کوئی کہتایہ فضول کام ہے، یہ آواز تو اچھی نہیں، کوئی کہتا تمہیں بولنا نہیں آتا، یہ کیسا ڈریس پہن رکھاہے؟ ایسے الفاظ خنجر کی طرح دل میں لگتے ہیں۔ مگر عورت جب اپنی ہمت کو مضبوط کر لیتی ہے تو یہ سب الفاظ کانوں سے ٹکرا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتی ہے کہ دنیا کی زبان اگر رک نہیں سکتی، تو اس کے قدم بھی رکنے نہیں چاہییں۔
دنیا بھر میں کئی عورتوں کی مثالیں ہیں جو دوسروں کے لیے امید بن گئیں۔ یوٹیوبر نیہا ملک نے اپنی کچن ویڈیوز سے آغاز کیا تھا اور آج ان کا چینل لاکھوں فالورز رکھتا ہے۔ پاکستان کی ایک گھریلو خاتون صائمہ نے چھوٹے سے کچن میں ویڈیوز بنانا شروع کیں، لوگ کہتے تھے یہ سادہ برتنوں میں کون دیکھے گا، لیکن آج وہ برانڈز کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ انڈیا کی نسرین، جو ایک عام سے گاؤں میں رہتی تھیں، ہاتھ سےبنے کھانے کی روایتی تراکیب ریکارڈ کرتی تھیں، آج ان کا چینل نہ صرف کمائی کا ذریعہ ہے بلکہ دنیا بھر کے لوگ ان کی ثقافت کو جاننے لگے ہیں۔ یہ عورتیں وہ مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ خواب حقیقت بن سکتے ہیں اگر دل سے محنت کی جائے۔
مجھے اپنا سفر یاد آتا ہے۔ میں نے بھی چھ سات سال پہلے ایک کوکنگ چینل شروع کیا تھا۔ گھر کے کونے میں بیٹھ کر موبائل پر ریکارڈنگ کرتی، کبھی آواز ٹھیک نہ آتی، کبھی روشنی کم ہوتی، کبھی ویڈیو دھندلی نکلتی۔ پہلے چھ مہینے میری ویڈیوز پر بمشکل سو ویوز آتے تھے۔ کوئی لائک نہیں، کوئی تبصرہ نہیں۔ دل کئی بار ٹوٹا۔ سوچتی شائد واقعی یہ سب وقت کا ضیاع ہے۔ مگر پھر دل میں ایک چھوٹی سی آواز گونجتی: "محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔" یہی آواز میرا سہارا بنی۔ آج جب میں دیکھتی ہوں کہ میرے چینل کے فالورز ملین میں ہیںاوربرانڈز میرے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں، اور جب میری آمدنی سے میرا گھر چلتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ وہ راتوں کی جاگی ہوئی تھکن ہی میری اصل کامیابی ہے۔ کامیابی کبھی یکدم نہیں ملتی۔ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا سفر ہے۔ پہلی بار سو ویوز آنا، پہلا کمنٹ ملنا، پہلا سبسکرائبر جڑنا، یہ لمحے عورت کو خوشی سے بھر دیتے ہیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بن جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے پہلی بار جب میری ویڈیو پر بیرون ملک سے کمنٹ آیا کہ "میں نے آپ کی ریسپی ٹرائی کی اور میرے گھر والوں کو بہت پسند آئی" تو اس لمحے ایسا لگا جیسے محنت کا صلہ مل گیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحات ہی بڑی منزلوں کی بنیاد بنتے ہیں۔
عورت کی کامیابی محض اس کی ذاتی خوشی تک محدود نہیں رہتی۔ جب وہ اپنے خواب پورے کرتی ہے تو وہ اپنے اردگرد کی عورتوں کے لیے روشنی کا چراغ بن جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے: "اگر میں کر سکتی ہوں تو تم بھی کر سکتی ہو۔" یہی جذبہ دوسرے گھروں کی عورتوں کو ہمت دیتا ہے۔ یوں ایک عورت کی کامیابی پورے معاشرے کے مستقبل کو سنوار دیتی ہے۔ آخرکار وہ لمحہ آتا ہے جب عورت آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو پہچانتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ یہ وہی میں ہوں جو کبھی ڈرتی تھی، جو کبھی دوسروں کی نظروں میں خود کو کم تر سمجھتی تھی۔ آج وہ اپنی محنت، اپنے عزم اور اپنے خوابوں کی بدولت ایک نئی پہچان رکھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے راستے میں ابھی اور مشکلات آئیں گی، لیکن اب اس کے قدم مضبوط ہیں۔ کیونکہ وہ یہ راز جان چکی ہے کہ اصل طاقت باہر کی دنیا میں نہیں، عورت کے اپنے اندر ہے۔
|