کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا ٹینڈر: شفافیت یا مخصوص کمپنیوں کو فائدہ؟


خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی (CTA) کی جانب سے جاری ہونے والے حالیہ ای-ٹینڈر نوٹس نے صوبے میں شفافیت، گڈگورننس اور عوامی فنڈز کے درست استعمال کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سا اشتہار لگتا ہے، مگر جب اس کی بڈنگ دستاویزات کو تفصیل سے پڑھا جائے تو کئی سنگین سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ سوالات نہ صرف اس نوٹس کی شفافیت پر بلکہ پالیسی سازی کے پورے عمل پر گہرے شکوک پیدا کرتے ہیں۔

ٹینڈر کی سب سے متنازعہ شرط ”ہارڈ ایریا“ کے تجربے پر اضافی نمبر دینے کی ہے۔ حیران کن طور پر اس کے لیے شندور کی مثال دی گئی ہے۔ شندور وہی ایونٹ ہے جسے خود صوبائی حکومت اور محکمہ سیاحت اپنی پہچان کے طور پر دنیا بھر میں پروموٹ کرتے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر صوبے کا سب سے بڑا اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایونٹ ”ہارڈ ایریا“ کہلائے تو چھوٹے علاقوں اور مقامی سطح پر ایونٹس منعقد کرنے والی کمپنیوں کے تجربے کو کس پیمانے پر پرکھا جائے گا؟ یہ شرط اس خدشے کو جنم دیتی ہے کہ شاید ٹینڈر دستاویزات کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ مخصوص کمپنیوں کو نوازا جا سکے۔ یعنی جو کمپنیاں پہلے سے ان بڑے ایونٹس سے منسلک رہی ہیں، وہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی۔ اس سے نہ صرف مسابقت محدود ہو جاتی ہے بلکہ نئے آنے والی کمپنیوں کے لیے مواقع بند ہو جاتے ہیں۔

’دستاویزات میں آٹھ سالہ ”ہارڈ ایریا“ تجربے کی شرط رکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ معیار کس تحقیق یا مارکیٹ اسسمنٹ کی بنیاد پر بنایا گیا؟ اگر کوئی باقاعدہ سروے یا اسٹڈی موجود نہیں تو پھر یہ شرط غیر منطقی اور جانبدارانہ لگتی ہے۔ آٹھ سالہ تجربہ صرف ان کمپنیوں کو فائدہ دیتا ہے جو طویل عرصے سے مخصوص سرکاری ایونٹس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شفافیت کے بجائے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے ذریعے چند مخصوص کمپنیوں کو نوازنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

مزید حیران کن پہلو یہ ہے کہ انہی سخت شرائط کو ساو¿نڈ اور لائٹنگ جیسی بنیادی خدمات پر بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ خدمات ہیں جو عام طور پر ضلعی انتظامیہ کے تحت فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کے لیے ”ہارڈ ایریا“ کا لیبل لگانا نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ بولی دہندگان کے لیے غیر ضروری رکاوٹ بھی بنتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر لائٹنگ اور ساو¿نڈ کو بھی ”ہارڈ ایریا“ سمجھا جائے گا تو پھر مسابقت کیسے ممکن ہو گی؟ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک عام ٹینڈر کو جان بوجھ کر اتنا پیچیدہ بنا دیا جائے کہ صرف چنیدہ کمپنیاں ہی اہل قرار پائیں۔

اشتہار میں بڈز جمع کرانے کے طریقہ کار پر بھی واضح تضاد ہے۔ ایک جانب کہا گیا ہے کہ تمام بولیاں ای پی اے ڈی (EPADS) پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کی جائیں، جبکہ دوسری جانب ہارڈ کاپی جمع کرانے اور کھولنے کی تاریخ بھی درج ہے۔ اس تضاد سے دو بڑے خدشات سامنے آتے ہیں:کیا بولی دہندگان کو جان بوجھ کر کنفیوڑ کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی خاص بولی دہندہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے رکھا گیا ہے؟ یہ تضاد شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے اور اعتماد کے بجائے مزید شکوک کو جنم دیتا ہے

اہلیت کے معیار میں بھی یکسانیت کا فقدان ہے۔ کہیں دو سال اور کہیں تین سال کا تجربہ لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ پیکیج تھری (فیبرکیشن اور انسٹالیشن) کے لیے کسی قسم کا تجربہ لازمی ہی نہیں۔ یہ غیر متوازن شرائط ظاہر کرتی ہیں کہ قواعد کسی جامع پالیسی کے تحت نہیں بلکہ جلد بازی یا کسی خفیہ مقصد کے تحت وضع کیے گئے ہیں۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کچھ پیکیجز کے لیے سخت شرائط ہیں تو دوسرے کے لیے نرمی کیوں؟ کیا یہ سب کسی خاص کمپنی یا گروپ کو فائدہ دینے کے لیے ہے؟

تنقید کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے اس ٹینڈر سے ”خصوصی افراد“ یا مخصوص کمپنیوں کو نوازنے کی پالیسی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت سب سے بنیادی شرط ہے، لیکن یہاں قواعد و ضوابط کے تضادات سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ دراصل کرپشن اور اقربا پروری کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ یہ وہی طرز عمل ہے جس نے خیبر پختونخوا کے دیگر محکموں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب اگر یہی رویہ سیاحت کے شعبے میں اپنایا جائے گا تو نہ صرف صوبے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ سرمایہ کاروں اور عوامی اعتماد کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان تضادات کی فوری وضاحت اور اصلاح نہ کی گئی تو یہ عمل قانونی پیچیدگیوں میں پھنس سکتا ہے۔ ٹینڈرنگ کے قوانین کے تحت شفافیت اور یکساں مواقع بنیادی تقاضے ہیں۔ اگر ان پر عمل نہیں ہوا تو مستقبل میں یہ ٹینڈر عدالتوں یا احتسابی اداروں کے سامنے چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہو گا بلکہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھیں گے۔

کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا حالیہ ٹینڈر ایک ایسا معاملہ ہے جو صرف ایک اشتہار سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ اس وسیع تر کہانی کا حصہ ہے جس میں قواعد و ضوابط کی مبہم تشریح، غیر منصفانہ شرائط اور جانبدار پالیسی سازی عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔اگر حکام نے فوری طور پر وضاحت اور شفاف اصلاحی اقدامات نہ کیے تو یہ تاثر مزید گہرا ہو گا کہ یہ عمل شفافیت کے بجائے مخصوص کمپنیوں کو نوازنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات عام ہیں۔ اب اگر کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی بھی اسی راستے پر چل پڑی تو یہ صوبے کی سیاحت، سرمایہ کاری اور عوامی اعتماد کے لیے ایک سنگین دھچکا ہو گا۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 804 Articles with 671454 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More