مشن خنجراب (وقار کا سفرنامہ) پہلی قسط

ایک بائیکر کے لیے خنجراب پاس جانا ایک خواب ہوتا ہے ۔ جسے ہم نے حقیقت بنانے کے لیے اس سفر کو اختیار کیا۔ محض تین دن میں یہ سفر مکمل کرکے واپس مظفرآباد پہنچنا بھی کسی عجوبہ سے کم نہ تھا۔ سفر کی روداد پڑھیے اور اپنی قیمتی آراء اور تبصروں سے ضرور نوازیے، مزید تصاویر کے لیے فیس بک پیج وقار کا سفر نامہ ملاحظہ فرمائیں۔

سری نگر ہائی وے اسلام آباد صبح طلوع آفتاب کا منظر

امیرالمؤمنین سیدنا مولا علی علیہ السلام کا فرمان "میں نے
ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کی معرفت حاصل کی" (مفہوم)
آخری ٹور (ہم جاپہنچے گلگت میں) اگست 2024ء میں کیااس کے بعد زندگی نے ایسا رنگ دکھایا کہ ہم کسی طرف نکل نہ سکے، جامعہ میں ڈیوٹی شروع ہوگئی، لکشمی جیب میں رہنے سے ناراض ہوگئی، صحت نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں، ہم دبک کے بیٹھ رہے۔ جنون سوار ہوا کہ موٹرسائیکل بدلنی چاہیے، پرانی کو سیل کرنا چاہا لیکن قیمت مناسب نہ ملی، نئی کے لیے مشورے شروع کیے کہ کونسی ہونی چاہیے سو مشوروں میں سے 90 جی ایس کے ملے باقی ہونڈا سی بی کے۔ کبھی بینک کے ذریعے خریدنے کی بات چلی تو کبھی سوزوکی کمپنی سے اقساط پر معاملات کرنے کی۔ اسی کشمکش میں اڑھائی ماہ گزر گئے، سوزوکی جی ایس 150 خریدی لیکن باوجوہ محض 1600 کلومیٹر چلانے کے بعد ہی اس کو بیچنا پڑا۔ (الگ سے کسی دن اس پر وڈے بلب 💡 سے روشنی ڈالیں گے)
پھر کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائڈنگ اور سیلاب نے میرے وطن کو آگھیرا۔ اسی دوران والدہ ماجدہ کی طبیعت شدید علیل ہوگئی، کچھ کاروباری معاملات بھی پورے ملک کی طرح وینٹی لیٹر تک جا پہنچے، ایک دو دوستوں سے بات چیت بھی چلی کہ مل کر ٹور کرتے ہیں لیکن کوئی بھی منصوبہ گل بات سے آگے نہ بڑھ سکا۔
اللہ بھلا کرے سید ماجد گیلانی صاحب کا جنہوں نے شادی خانہ آبادی کی تاریخ کا حتمی اعلان صادر کر دیا۔ ساتھ ہی ہمیں ایک ہفتہ قبل از شادی پہنچنے کا حکم سنایا۔ انہی دنوں والدہ صاحبہ کی بگڑتی طبیعت نے سب منصوبہ جات کو از سرنو ترتیب دینے کی طرف توجہ مبذول کروئی۔ اس سفر میں ساتھ چلنے کو تیار مقصود بھائی خود دو ماہ سے صحت کے معاملات سے نبرد آزما تھے، احسان قمر بھائی نے بھی جانا تھا لیکن گھر میں ان کا موجود رہنا زیادہ لازم ہوگیا۔ بس یوں سمجھیں کہ ماجد شاہ جی کی شادی نہ ہوتی تو گھر سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا۔ آخر میرے یار کی شادی تھی کوئی مخول تھوڑی تھا۔ ایک دن میں سب تیاری کی، جلدی میں کچھ سامان رکھا کچھ رکھنا بھول گئے کچھ رکھا ہوا ملا ہی نہیں۔ اور ہم دو افراد اور موٹرسائیکل بذریعہ بس رات ایک بجے عازم راولپنڈی ہوئے۔
فیض آباد پہنچ کے موٹرسائیکل کے سائڈ مرر کسے، بیگ سیٹ کیے، پیٹرول سے ٹینکی فل کرائی اور چل دیے آزاد کشمیر کے لیے براستہ مری ایکسپریس وے۔ ہلکا پھلا ناشتہ فیض آباد کوئٹہ کیفے سے کیا اور عشق کا گھوڑا ڈال دیا کشمیر کی سمت۔ مری لوئر ٹوپہ سے آگے چشمہ پر مختصر پانی کا وقفہ کیا اور پھر عازم سفر ہوگئے۔ کوہالہ پل کراس کرکے سری نگر ہائی وے پر مظفرآباد پھر ہٹیاں بالا کے علاقہ ندول شریف جا پہنچے۔ یوں رات ایک بجے شروع ہونے والا سفر دن کے ساڑھے گیارہ بجے پہلے پڑاؤ پر اختتام پذیر ہوگیا۔
گیلانی ہاؤس کی رونقیں دیدنی تھیں۔ خوب چہل پہل تھی، دوپہر کا کھانا بالکل تیار تھا۔ شام تک لائٹنگ نے ماحول کو بقعہ نور بنا دیا۔ ٹینٹ کا سامان آپہنچا تھا۔ گھر کے صحن میں اپنی مدد آپ کے تحت کنوپی کی فٹنگ کی جانے لگی، دیگیں پکانے کا اہتمام ہونے لگا۔ مہندی کی رات خوب رونق رہی، یاروں کا اکٹھ الگ ہی رونق افروز تھا۔
اگلے دن بارات کی تیاری تھی، میں اور مقصود نے مل کر دولہا کی کار کی سجاوٹ کی، بارات ندول شریف سے باغ کی طرف براستہ چکار، سدھن گلی روانہ ہوئی، گلگت سے آئے مہمان بھی بارات میں شامل ہوئے، ماجد شاہ جی کو گلگتی ٹوپی پہنائی گئی جس سے دولہا میاں کے حسن کو چار چاند لگ گئے۔ بارات پہنچی، میرج ہال میں کھانے کا وسیع انتظام تھا، ہال کے ساتھ ملحقہ مسجد میں نہایت سادگی سے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی، یوں سورج ڈھلنے سے پہلے واپسی ہوگئی۔ سب معاملات بخیریت پایہ تکمیل کو پہنچے۔
اگلا دن یعنی 14 ستمبر 2025ء ہم نے مشن خنجراب شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھر سے روانگی صبح سات بجے کی بجائے دن ساڑھے بارہ بجے ہوئی۔
ندول سے گڑھی دوپٹہ، مظفرآباد، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ جانب گلگت سفر شروع کیا۔ کاغان سے چار کلومیٹر پہلے موٹرسائیکل کا پچھلا ٹائر پنکچر ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

 

M. Qasim Waqar Sialvi
About the Author: M. Qasim Waqar Sialvi Read More Articles by M. Qasim Waqar Sialvi: 71 Articles with 32050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.