2025ء کا مون سون موسم پاکستان کے لیے المناک ثابت ہوا ہے۔ جون سے
ستمبر تک جاری شدید بارشوں، بادل پھٹنے اور دریاؤں کی طغیانی نے ملک بھر
میں تباہی مچا دی۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور
آزاد کشمیر متاثر ہوئے۔ 17 ستمبر 2025 تک، سیلاب نے 900 سے زائد جانیں لے
لیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، اور اربوں روپوں کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ
مضمون سیلاب کی تباہ کاریوں، امدادی کوششوں اور موجودہ صورتحال کا جائزہ
لیتا ہے سیلاب کی تباہ کاریاں سیلاب کی شدت اس قدر تھی کہ پنجاب
کو "تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب" قرار دیا گیا۔ دریائے راوی، ستلج، چناب اور
سندھ کی طغیانی سے ہزاروں دیہات زیر آب آ گئے۔ خیبر پختونخوا میں فلیش فلڈز
نے سوات، بنیر اور دیگر علاقوں کو تباہ کر دیا، جہاں 425 سے زائد افراد
ہلاک ہوئے۔پنجاب میں 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، جبکہ سندھ میں سپر
فلڈ نے گڈو بیراج تک خطرہ بڑھا دیا۔ زرعی نقصان سب سے زیادہ تشویشناک
ہے۔ پاکستان کی معیشت زراعت پر منحصر ہے، اور سیلاب نے کپاس، چاول اور گنے
کی فصلوں کو 30 سے 60 فیصد تک تباہ کر دیا۔ کسانوں کی تنظیموں کے مطابق،
ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہوں گی، جو ملک کی جی ڈی پی کا 24 فیصد حصہ ہیں۔
مویشیوں کی ہلاکت اور زمینوں کی تباہی سے غذائی قلت کا خطرہ منڈلانے لگا
ہے۔ انفراسٹرکچر جیسے سڑکیں، پل اور گھر بھی بری طرح متاثر ہوئے، جہاں 1.8
ملین افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ڈینگی جیسے امراض کا بھی خطرہ
بڑھ گیا ہے، خاص طور پر متاثرہ علاقوں میں۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں
میں الرٹ جاری ہو چکے ہیں۔ امدادی کوششیں حکومت اور بین الاقوامی
اداروں نے فوری امداد شروع کی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم
اے) اور پاک فوج نے بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشنز کیے، جس میں بوٹس، ہیلی
کاپٹرز اور ڈرونز استعمال ہوئے۔ 2 ملین سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر
منتقل کیا گیا، اور سینکڑوں ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔ اقوام متحدہ نے
5 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا، جبکہ امریکہ نے فنڈنگ اور ریسکیو ٹیمز
بھیجے۔مقامی این جی اوز اور رضاکاروں نے خوراک، پانی، طبی امداد اور ٹینٹس
تقسیم کیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان
کیا، اور صوبائی حکومتیں بحالی کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ تاہم، کچھ
علاقوں میں امداد کی کمی کی شکایات ہیں، جہاں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر
مجبور ہیں۔ موجودہ صورتحال (17 ستمبر 2025) سیلاب کی شدت کم ہو
رہی ہے، لیکن بحالی کا عمل ابھی شروع ہے۔ دریاؤں کا بہاؤ اب بھی خطرناک ہے،
خاص طور پر سندھ میں۔ 4.225 ملین افراد متاثر ہیں، جن میں سے بہت سے ریلیف
کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، جیسے آٹے کی
قیمت 150 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ حکومت کی جانب سے کیش ٹرانسفرز اور
فصلوں کی بحالی کے لیے فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے
کہ ڈیمز کی تعمیر، جنگلات کی بحالی اور بہتر وارننگ سسٹم کی ضرورت ہے۔
بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جو دریاؤں کی
طغیانی کا سبب بنا مستقبل کی راہ یہ سیلاب پاکستان کو موسمیاتی
تبدیلی کی شدت سے آگاہ کرتے ہیں۔ ملک گلوبل اخراجات کا 1 فیصد سے بھی کم
حصہ رکھتا ہے، مگر متاثر ہونے والوں میں سرفہرست ہے بحالی کے لیے بین
الاقوامی تعاون، انفراسٹرکچر کی مضبوطی اور زرعی اصلاحات ضروری ہیں۔ عوام
کی یکجہتی اور حکومت کی شفاف امداد سے پاکستان اس بحران سے نکل سکتا ہے،
مگر مستقبل کے سیلابوں سے بچاؤ کے لیے طویل مدتی اقدامات ناگزیر ہیں۔
|